اگر مکان بنانا سستا ہو، اس میں استعمال ہونے والی توانائی یہ خود پیدا کرے، اور ماحول کو نقصان نہ پہنچائے، تو آپ کو یہ کیسا لگے گا؟
1969 میں فن تعمیرات کے سکول سے گریجوایشن کرنے کے بعد مائیکل رینالڈز نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کو اور ایک آدمی کے کوڑا کرکٹ کے دوسرے آدمی کے خزانہ ہونے کو ثابت کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔
انہوں نے بتایا، “میں کوئی بڑا کاروبار کھڑا کرنے یا کوئی اور کام کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ میں تو یہ کام اپنی ذات اور اردگرد رہنے والے اپنے دوستوں کے لیے کر رہا تھا۔
انہوں نے گزشتہ 50 برس امریکی ریاست نیو میکسیکو کے قصبے ٹاؤس اور دنیا بھر میں “ارتھ شپس” نامی گھر ڈیزائن اور تعمیر کرنے میں گزارے۔ یہ ارتھ شپس خود کفیل گھر ہوتے ہیں اور انہیں رینالڈز سمندری جہاز بھی کہتے ہیں۔
ہر گھر خوراک، پانی، توانائی، آرام دہ پناہ گاہ، گندے پانی اور کوڑے کرکٹ کے دوبارہ استعمال کرنے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ رینالڈز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی بھی گھر کو گرم رکھنے کے لیے معدنی ایندھن استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے یعنی ہر گھر کی توانائی کی ضروریات صفر کاربن کے اصول کے تحت پوری کی جائیں۔

اس مہم نے گزشتہ دہائی میں زور پکڑا۔ رینالڈز کے تصور کے نتیجے میں ٹاؤس میں ایک سو سے زیادہ پائیدار اور “خود کفیل” عمارتیں بنائی جا چکی ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق اس طرح کے گھر سینکڑوں کی تعداد میں امریکہ ماور پوری دنیا میں کینیڈا سے لے کر ملاوی تک پھیلے ہوئے ہیں۔
1970 میں شام کے وقت خبریں دیکھتے ہوئے رینالڈز کے ذہن میں پہلا ارتھ شپ بنانے کا خیال آیا۔ بحرالکاہل کے شمال مغرب میں لکڑی کی قلت کے بارے میں ایک خبر اور اس کے بعد بیئر کے فالتو خالی ڈبوں کے بارے میں ایک خبر نے رینالڈز کے ذہن میں یہ سوال پیدا کیا کہ کیا اِن دونوں مسائل کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا “میڈیا کے ردعمل میں میرے ذہن میں ارتھ شپ کا سارا تصور اُس وقت آیا جب میڈیا ہمیں اُن مسائل کے بارے میں بتا رہا تھا جن کا ہمیں [اپنے] کرہ ارض پر سامنا ہے۔”

انہوں نے اپنے پہلے گھر میں بیئر کے خالی ڈبوں کو بلڈنگ بلاکوں کے اندر انسولیشن کے طور پر استعمال کیا اور بعد میں اس تکینیک کو انہوں نے اپنے نام پیٹنٹ کی حیثیت سے رجسٹر کرایا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بیئر کمپنیوں نے اس کے بارے میں سنا تو انہوں نے اُس پورے تعمیراتی منصوبے کے لیے فنڈ فراہم کیا۔
انہیں فوری طور پر احساس ہوا کہ مزید ایسے گھر بنانے چاہئیں جن میں رہنے کے لیے درکار سب چیزیں موجود ہوں یعنی اِن گھروں میں خوراک، پانی، رہائش اور گندے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے صاف کرنے کی سہولتیں موجود ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول میں کاربن کی موجودگی بھی کم ہو۔
ہر ارتھ شپ میں لگ بھگ 40% قدرتی یا ری سائیکل کی گئیں اشیاء استعمال کی گئیں اور اگر گھر کا مالک پودے لگائے تو اُس کی 25% سے لے کر 50% تک خوراک کی ضروریات بھی پوری ہو سکتی ہیں۔

ارتھ شپ گھرں کو مٹی کے چھوٹے چھوٹے پشتے بنا کر محفوظ بنایا گیا ہے اور اِن میں ٹائروں اور شیشے کی بوتلوں جیسے کوڑے کرکٹ سے تیار کی گئی موٹی موٹی سلیں استعمال کی گئیں ہیں۔ اس کی وجہ سے ہر گھر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ (140 مربع میٹر کے ایک عام ارتھ شپ گھر میں 1,000 ٹائر اور دیواروں میں 500 شیشے کی بوتلیں استعمال کی جاتی ہیں۔)
گھر کو بجلی سولر پینل فراہم کرتے ہیں۔ ری سائیکل کیے جانے والے اور بارش کے صاف کیے گئے پانی کو بڑے بڑے بیرلوں میں جمع کر کے گھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گھر میں نہانے دھونے اور برتن دھونے کے گندے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بناکر، گھر کے اندر اور باہر اگائی جانے والی سبزیوں کی آبیاری کی جاتی ہے۔ تاہم اس میں بیت الخلا کا پانی شامل نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں، “ہمیں اختراع کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ممکن بھی ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کا طریقہ کار موجود ہے۔”
امریکہ کے دوسسرے ماہرین تعمیرات اور ڈیزائنر اپنے گھروں کی تعمیر میں ری سائیکل شدہ مواد شامل کرکے رینالڈز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اس کی دو مثالیں کولوراڈو میں ونڈر ہاؤس اور ٹیکساس میں کارک ہاؤس ہیں۔
اگرچہ ری سائیکل شدہ مواد سے مکمل طور پر نئے گھروں کی تعمیر تو ممکن نہیں ہے، تاہم رینالڈز موجودہ گھروں کو پائیدار اور آب و ہوا کے موافق بنانے کے لیے سولر پینل اور پانی کی بچت پر توجہ دینے جیسی تبدیلیوں کا مشورہ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “میرے گھر پر سورج چمکتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ میرے پاس بجلی ہو گی۔ میرے گھر پر بارش برستی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میں پانی حاصل کر سکتا ہوں۔ ہمیں پائیداری کی سمت آگے بڑھنے کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔”