کیا آپ شہری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ان تین بہادر خواتین سے واقف ہیں؟

اگرچہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا شمار امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے نمایاں ترین ناموں میں ہوتا ہے تاہم بہت سے دیگر لوگوں نے بھی افریقی نژاد امریکیوں کے لیے زیادہ منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ان کے ساتھ کام کیا۔ یہاں تین ایسی خواتین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے قانونی اور سماجی تبدیلی کے لیے اہم کردار ادا کیے۔

کوریٹا کنگ

مصور کی بنائی گئی تصویر کے سامنے بیٹھی ہوئی ایک عورت۔ (© Joe Holloway Jr./AP Images)
مارٹن لوتھ کنگ کی مصور کی بنائی گئی تصویر کے سامنے کھڑی کوریٹا کنگ۔ (© Joe Holloway Jr./AP Images)

کوریٹا سکاٹ کنگ کا کردار مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی بیوی ہونے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ تحریک کے لیے کنگ کی حکمت عملی کا لازمی حصہ تھیں۔ دونوں شہری حقوق کی تحریک کو پرامن احتجاج اور سماجی تنظیم کی بنیاد پر چلانے کا عزم رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں، سکاٹ کنگ کی تربیت ایک کلاسیکل گلوکارہ کے طور پر ہوئی تھی اور انہوں نے جنوبی علاقوں میں موسیقی کے پروگرام منعقد کیے جن کی بدولت نسلی عدم مساوات کے بارے میں مکالموں کا آغاز ہوا اور تحریک کے لیے عوامی حمایت کے حصول اور مالی وسائل جمع کرنے میں مدد ملی۔

کنگ کی موت کے بعد سکاٹ کنگ نے اپنے شوہر کا کام جاری رکھا اور ان کی میراث کو متشکل کیا۔ سکاٹ کنگ جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کی شدید مخالف تھیں اور انہوں نے نسلی مساوات کے لیے پرامن احتجاج کی قیادت جاری رکھی۔ انہوں نے تحریک کی تاریخ محفوظ رکھنے کے لیے 1968 میں اٹلانٹا میں دی کنگ سنٹر بھی قائم کیا۔ آج یہ سنٹر قومی تاریخی مقام کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور یہاں ہر سال آنے والے ہزاروں لوگوں کو کنگ اور شہری حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔

ڈوروتھی کاتن

ایک عورت کے سر اور کندھوں کی تصویر۔ (© Michael Ochs Archives/Getty Images)
ڈوروتھی کاٹن (© Michael Ochs Archives/Getty Images)

ڈوروتھی کاٹن 1957 میں کنگ، وایٹ ٹی واکر اور جم وڈ کے ساتھ ”سدرن کرسچین لیڈرشپ کانفرنس” (ایس سی ایل سی) کی بانی رکن تھیں۔

اگلی دہائی میں ‘ایس سی ایل سی’ شہری حقوق کے لیے سرگرمی، جنوب بھر میں غیرمتشدد احتجاج منظم کرنے اور عوامی مقامات پر نسلی علیحدگی کے خاتمے کے مطالبات کا مرکز بن گیا۔

کاٹن نے’ ایس سی ایل سی’ کے زیراہتمام شہریوں کے تعلیمی پروگرام کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنے کام کے ذریعے افریقی نژاد امریکی لوگوں کو ووٹر رجسٹریشن کے بارے میں آگاہی دی اور انہیں غیرمتشدد احتجاج کے طریقے سکھائے۔ اپنے کام کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ”وہ لوگوں کو یہ احساس دلانے میں مدد دیتی ہیں کہ نیا نظام لانے کے لیے جو شے درکار ہے وہ ان کی اپنی ہی ذات میں موجود ہے۔” انہوں نے کنگ کے ساتھ تسلسل سے خط و کتابت کی اور 1964 میں ان کے ہمراہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو گئیں جہاں کنگ نے امن کا نوبیل انعام وصول کیا تھا۔

جو این روبن سن

ایک عورت کی تصویر جس میں اس نے ایک کاغذ پکڑا ہوا جس پر نمبر تحریر ہے۔ (© Montgomery County [Alabama] Archives)
جو این روبن سن۔ (© Montgomery County [Alabama] Archives)
منٹگمری بس بائیکاٹ میں روزا پارکس کے کردار سے بہت سے لوگ آگاہ ہیں مگر اس کے پس پردہ جو این رابن سن کی تنظیمی کوششیں چند ہی لوگوں کو یاد ہیں۔

1955 میں بس میں اپنی نشست ایک سفید فام مسافر کو دینے سے انکار کرنے پر روزا پارکس کی گرفتاری کے بعد رابن سن نے الباما میں سرکاری بسوں میں نسلی علیحدگی کے قوانین کے خلاف احتجاج کے لیے 52 ہزار لوگوں کو متحرک کیا۔ یہ بائیکاٹ ایک سال تک جاری رہے اور بالاآخر جنوب بھر میں نسلی علیحدگی کے خاتمے پر منتج ہوئے۔ رابن سن نے گرفتاری کا خطرہ مول لیتے ہوئے ناصرف بائیکاٹ منظم کیے بلکہ ان میں شرکت بھی کی۔

رابن سن اپنی سوانح میں لکھتی ہیں کہ ”یہ بائیکاٹ وہ سب سے خوبصورت یاد ہے جسے اس میں شریک ہونے والے ہم سب لوگ اپنے ساتھ اپنی آخری آرام گاہوں میں لے کر جائیں گے۔” کنگ نے بائیکاٹ منظم کرنے پر رابن سن کی تعریف کی اور احتجاج کے ہر مرحلے پر ان کے کردار کا اعتراف کیا۔