Hand holding up mobile phone to take picture of crowd (© Shutterstock)
(© Shutterstock)

اگر آپ اپنے علاقے کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرنے یا اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو گویا آپ شہری صحافی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ڈیجیٹل دور میں خبروں سے متعلق رجحانات پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ میڈیا شفٹ کے بانی مارک گلیزر کہتے ہیں, “اگر کوئی شخص تربیت یافتہ صحافی ہوئے بغیر صحافت کا کام کر رہا ہے تو وہ شہری صحافی کہلائے گا۔  گلیزر کے مطابق شہری صحافیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا مقصد اپنے مشاہدے کی بابت لوگوں کی بڑی تعداد کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور ایسے لوگ جو خبر وقوع پذیر ہوتے وقت موقع پر موجود ہوتے ہیں اورسوشل میڈیا پر اس بارے میں اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔

Two silhouetted people (© Shutterstock)
(© Shutterstock)

گو کہ غیرپیشہ وارانہ صحافیوں کا اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کا تصور صدیوں پرانا ہے تاہم انٹرنیٹ کی بدولت شہری صحافت کو بے حد فروغ ملا ہے۔

میڈیا کی ماہر سماجیات ویلیری بیلئر گیگنن کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ نے روایتی خبر رساں اداروں کی ساخت تبدیل کر کے اس کی مرکزیت بہت حد تک گھٹا دی ہے۔

گلوبل پریس انسٹیٹیوٹ جیسے گروپوں نے دنیا بھر کے ایسے خطوں میں خواتین کو اُن کے علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کی خبریں دینے کی تربیت فراہم کی ہے جن کے بارے میں عالمی میڈیا پر زیادہ اطلاعات نہیں ہوتیں۔ اس کی ایک مثال جمہوریہ کانگو ہے۔ انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹس نے نائیجیریا کے نائیجر ڈیلٹا کے علاقے میں شہریوں کو صحت، ماحول اور مقامی سہولیات سے متعلق مسائل پر لکھنے کی تربیت دی ہے۔

گلیزر کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے علاوہ سوشل میڈیا میں ترقی سے صحافت میں ایک اور بڑی نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “سمارٹ فونوں کی بدولت لوگ اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کی نہایت آسانی سے تصاویر لے کر انہیں ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ پر ڈال سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت شہری صحافیوں کی حیران کن تعداد سامنے آئی ہے۔”

سوشل میڈیا سے ترقی پانے والی اس شہری صحافت نے اہم واقعات کو سمجھنے کے لیے دنیا کے طور طریقے بدل کر رکھ  دیئے ہیں۔ 2007 میں برما میں آنے والا زعفرانی انقلاب، 2010 میں ہیٹی کا زلزلہ اور عرب بہار ایسے واقعات کی نمایاں مثالیں ہیں۔

“شہری صحافیوں کا فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔”

~ مارک گلیزر، بانی ‘میڈیا شفٹ’

گلیزر کے مطابق شہری صحافیوں کا کام ایسے تناظر سامنے لاتا ہے جو مرکزی دھارے کی صحافت کی نگاہوں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔

اس کے نقصانات کیا ہیں؟ گلیزر کہتے ہیں، “جب آپ شہری صحافیوں سے مواد حاصل کرتے ہیں تو اِن کا قابل اعتبارہونے کا مسئلہ رہتا ہے۔ موبائل فون سے واقعے کی رپورٹ کرنے والے کسی راہگیر کو شاید یہ علم نہ ہو کہ کون سی تصویر لینی ہے یا تربیت یافتہ صحافی کی طرح کون سے سوالات پوچھنا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، “یہ کام تب ٹھیک رہتا ہے جب شہری صحافیوں کی فراہم کی گئی معلومات کو ایسا پیشہ ور خبررساں ادارہ اٹھا لیتا ہے جس کے پاس  ان اطلاعات کی تصدیق اور انہیں درست تناظر مہیا کرنے کی اہلیت ہوتی ہے۔”

عرب بہار کے مظاہروں میں معتبر خبررساں اداروں نے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرین اور راہگیروں کی جانب سے ٹویٹر اور واٹس ایپ پر پوسٹ کی جانے والی رپورٹوں کا بھرپور استعمال کیا۔ بیلئر گیگنن کہتی ہیں، “ایسے واقعات میں شہری میڈیا نے خبررساں اداروں کی بنیادی اطلاعات بہتر بنانے اور تحریکوں کو اپنی اطلاعات کی ذمہ داری قبول کرنے میں مدد دی۔”

حال ہی میں وینیزویلا میں شہری صحافیوں نے اس وقت سوشل میڈیا پر خبریں دیں جب میڈیا کے  روایتی اداروں پر حکومتی اختیار کے تحت پابندیاں لگا دی گئیں تھیں۔ وہاں صدر نکولس مادورو کے خلاف احتجاج کی خبریں ٹی وی پر تو نہیں آ سکیں مگر سوشل میڈیا پر ان کی بھرپور کوریج ہوئی۔