انیسہ حاسیبیان ایک مسلمان فیشن ڈیزائنر ہیں۔ وہ انڈونیشیا میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں نیویارک فیشن ویک کے دوران انھوں نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے اپنے تیار کیے ہوئے لباسوں کی نمائش کی جس کی خاص بات یہ تھی کہ ہر ماڈل لڑکی کے سر پر حجاب تھا۔ خریداروں، پریس اور عام لوگوں کے لیے نیویارک میں ہونے والے اس ششماہی فیشن شو میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی فیشن کے لباسوں کی نمائش میں ماڈل لڑکیاں سر پر حجاب لیے ہوئے تھیں۔

Elle میگزین کے مطابق، ریشم کی رنگ برنگی قمیضوں، چغوں، پاجاموں، پتلونوں، سوٹوں اور کیمونوز پر مشتمل 48 لباسوں کو نیویارک کے شائقین نے جنہیں شاذونادر ہی کوئی لباس پسند آتا ہے، کھڑے ہو کرحاسیبیان کو بھر پور داد دی۔
نیویارک میں حاسیبیان کے 1 سالہ لیبل کا کامیاب افتتاح صرف ان کی اپنی فتح ہی نہیں ہے، بلکہ یہ فتح باوقار فیشن کی تحریک کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تحریک کی ابتدا جدید فیشن کی دلدادہ ان مسلمان عورتوں کی وجہ سے ہوئی جنہیں شکایت تھی کہ ان کے لیے اور دنیا بھر میں 55 کروڑ مسلمان عورتوں کے لیے جو سر پر حجاب لیتی ہیں مخلتف قسم کے لباس پہننے کے محدود مواقع ہیں۔
اور فیشن میں شائستگی کے بارے میں بلاگوں کی مقبولیت سے حاسیبیان کے اس پیغام کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے کہ لباس سے ڈھکا ہوا جسم بھی اتنا ہی دلکش اور پُروقار ہو سکتا ہے جتنا کہ جدید فیشن میں ملبوس جسم۔ 20 سالہ سمر البارشا ایسے ہی ایک بلاگ کی مصنفہ ہیں۔
البارشا سینٹ لوئی کے ایک کالج میں پڑھتی ہیں۔ ان کے والدین شام سے نقلِ مکانی کر کے امریکہ آئے تھے۔ وہ اپنے بلاگ اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر جدید لیکن پُر وقار لباسوں کے فوٹو پوسٹ کرتی ہیں۔ ان کے عالمی انسٹاگرام پڑھنے والوں کی تعداد 314,000 ہے، اور ان کے انسٹاگرام پوسٹس کے حوالے “میری کلیئر” رسالے اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے دیئے ہیں۔

جہاں تک حسیبیان کا تعلق ہے، تو وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے ڈیزائنوں کی تخلیق میں اپنے ملک کے ٹیکسٹائل کے روایتی ڈیزائنوں اور اپنے شہر جکارتہ سے استفادہ کیا ہے۔
انھوں نے دی جکارتہ پوسٹ کو بتایا، “میں فیشن کی دنیا میں انڈونیشیا کے نام کو متعارف کرانا چاہتی ہوں، اور اپنے ملبوسات کے ذریعے لوگوں کو انڈونیشیا کے مخلتف اور متنوع علاقوں کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔”
نیو یارک میں ان کے ملبوسات کا جتنا پُرجوش خیرمقدم کیا گیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حاسیبیان فیشن ایبل دوشیزاوًں کے عالمی معنی کو نئی وسعت دینے کی راہ پر گامزن ہیں۔