فوجی تصادم کے بغیر کسی غیر ملک یا لوگوں کے کسی مخصوص گروہ کے ساتھ مذاکرات کے استعمال سے اُن کے رویے کو تبدیل کرنے میں، پابندیاں ایک طویل عرصے سے امریکی پالیسی سازوں کو ایک متبادل فراہم کرتی چلی آ رہی ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں امریکی حکومت نے درجنوں بار ان پابندیوں کا استعمال کیا اور آج بھی انہیں مؤثر بنانے کا عمل جاری ہے۔
ان پابندیوں کا مقصد یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاوً سمیت، امریکہ کی خارجہ پالیسی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث غیرملکی حکومتوں (یا افراد یا اکائیوں) کو اس کی قیمت چکانی پڑے۔ امریکہ نے دیگر ممالک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کی خاطر ان پابندیوں کو ایک ترغیب کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔
یہ سمجھنا اہم ہے کہ کسی ملک کے اقدامات کو تبدیل کرنے کی خاطر ایک وسیع تر حکمت عملی کے تحت اِن پابندیوں کو ایک ترکیب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ بذات خود کوئی حکمت عملی نہیں ہیں۔ کسی ملک کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے امریکی حکومت سیاسی دباؤ، کثیرالمملکتی اداروں ا ور ديگر اقدامات کا استعمال کرتی ہے۔ پابندیاں خاص طور پر اس وقت مؤثر ثابت ہوتی ہیں جب ان کو عالمی اشتراک سے نافذ کیا جاتا ہے۔
لہذا اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ جیسے جیسے پابندیوں کے نفاذ کی وجوہات بدلتی ہیں اور اُن کے موثرپن میں اضافہ ہوتا ہے بعینہی اسی طرح ان پابندیوں کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ امریکی حکومت غیرملکی کرداروں کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں استعمال کر سکتی ہے۔ مگر کوئی پابندی بھی اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا اہم مخصوص معاشی سرگرمیوں، اداروں یا افراد کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ گذشتہ عشروں میں، امریکی حکومت عمومی طور پر کسی ایک ملک پر پابندیاں عائد کرتی رہی ہے۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، امریکی حکام نے مخصوص افراد یا اداروں کو نشانہ بنا کر پابندیوں میں ایسے طریقے سے بہتری پیدا کی ہے جس سے متعلقہ ملک کے عوام کم سے کم متاثر ہوتے ہیں۔
اقتصادی پابندیوں کو اب ہتھوڑے کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ انہیں ایک نشتر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ان “موثر پابندیوں” سے کسی ملک کے برے کرداروں کو نشانے پر دھرا جا سکتا ہو۔
ٹفٹس یونیورسٹی کے عالمی سیاسیات کے پروفیسر، ڈین ڈریزنر کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے پیدا ہونے والے اقتصادی مسائل سے عام شہریوں کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا ناممکن ہے۔ تاہم اہدافی پابندیاں خاصی کامیاب ثابت ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ان کو ایسے طریقے سے نافذ کر سکتے ہیں جس سے سڑک پر چلتے ہوئے ایک عام شہری کی نسبت “اشرافیہ کو بعض شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے۔”
ڈریزنر کا کہنا ہے کہ زیرک معاشی پابندیاں “امریکی خارجہ حکمت عملی کا مؤثر ترین ہتھیار ثابت ہوئی ہیں۔”
امریکی حکومت، غیر ممالک پر اثرانداز ہونے کے لئے دیگر کئی اقسام کی پابندیوں کا نفاذ کرتی رہتی ہے۔ امریکہ میں داخلے کو روکنے کے لیے، چند مخصوص افراد کو خاص طور پر سفری پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سفارتی پابندیوں کو کسی ملک کے اقدامات کے خلاف ناپسندیدگی کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان پابندیوں کے نتیجے میں [امریکی] سفیر کو واپس بلایا جا سکتا ہے اور کسی اعلٰی سطحی اجلاس کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
جب سفری پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اور ادویات اور خوراک جیسے دیگر مقاصد کی خاطر، عموماً ان پابندیوں سے استثناء دے دیا جاتا ہے۔
یہ مضمون ایک آزاد صحافی، ڈینی وینیک کے پہلے تحریر کردہ ایک مضمون کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔
