کیا کوئی نام شہری حقوق کا استعارہ بن سکتا ہے؟

دو افراد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ایک عمارت کی طرف جا رہے ہیں (© David L. Ryan/The Boston Globe/Getty Images)
28 اپریل 2021 کو ریاست میساچوسٹس کے شہر کیمبرج میں بیٹا اپنے والد کا ہاتھ پکڑے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نامی سکول جا رہا ہے۔ (© David L. Ryan/The Boston Globe/Getty Images)

امریکہ کے لوگ ہر سال جنوری کے تیسرے پیرکو شہری حقوق کے لیڈر آنجہانی مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس دن وفاقی تعطیل ہوتی ہے۔ یہ دن یا تو اُن کے یوم پیدائش والے دن یا ایک آدھ دن آگے پیچھے پڑتا ہے۔ وہ 15 جنوری 1929 کو پیدا ہوئے۔

جگہوں یا تقریبات کے نام رکھ کر بھی کنگ کو یاد رکھا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹینیسی میں جغرافیے کے پروفیسر ڈیرک ایلڈرمین کا کہنا ہے کہ وفاقی تعطیل نے کنگ کو ایک مسلمہ تاریخی شخصیت بنا دیا ہے۔ کمیونٹی گروپوں، سکولوں اور دیگر اداروں نے ان کا نام اس لیے استعمال کرنا شروع کیا کیونکہ ان کی شبیہ اور ورثہ “امریکی عوام کو متاثر کرتے ہیں۔” ایلڈرمین کا کہنا ہے کہ “حقیقت میں یہ نام شہری حقوق کے بڑے مسائل کے بارے میں بات کرنے کا ایک اختصاریہ [اور] ایک استعارہ بن سکتا ہے۔”

واشنگٹن مانیو منٹ کے قریب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر مجمے کی طرف ہاتھ ہلا رہے ہیں (© AP Images)
کنگ 28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں مجمعے کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اس دن انہوں نے “میرا ایک خواب ہے” نامی تقریر کی تھی۔ (© AP Images)

    قوم کی یادوں میں زندہ

ہوورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر بنجمن ٹالٹن کہتے ہیں کہ کنگ کے نام پر جگہوں کے نام رکھنے کا رجحان 1968 میں ان کے قتل کے بعد پیدا ہوا۔

پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی کے جغرافیے کے پروفیسر جوشوا اِنوڈ کہتے ہیں کہ جگہوں کے نام کنگ اور ان کے امریکہ کے بارے میں تصور کے ساتھ جڑے رہنے کا ایک علامتی طریقہ ہیں۔ شہری حقوق کی تحریک کے حوالے سے “‘ٹھیک ہے، اب اگلا قدم کیا ہوگا؟’ کی [سوچ] کے بارے میں بعض حقیقی سوالات اٹھا کرتے تھے؟” اِنوڈ کا کہنا ہے کہ کنگ کے نام کو کنکریٹ، سڑکوں یا لائبریریوں جیسے زمینی مقامات سے منسوب کرنے سے انہیں [کنگ کو] قومی شعور میں رچ بس جانے میں مدد ملی ہے۔

ایلڈرمین کے اندازے کے مطابق امریکہ میں کنگ کے نام سے منسوب ہزاروں چیزیں ہیں۔ مقامی گلیوں اور لائبریریوں کے علاوہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے نام سے سکولوں، پارکوں اور پیدل راستوں، یادگاروں، وظائف، پلوں، ریستورانوں، شاہراہوں، خوراک کی فراہمی کی مہموں، سوئمنگ پولوں، اداروں اور کھیلوں کی ٹیموں کے نام بھی منسوب کیے جا چکے ہیں۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تصویر کے قریب بیٹھا بچہ (© Wilfredo Lee/AP Images)
2005 میں میامی میں ہونے والی مارٹن لوتھر کنگ جونیئر پریڈ میں فلوٹ پر بیٹھا ایک بچہ مجمعے کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ (© Wilfredo Lee/AP Images)

کنگ نہ تو اِن سب جگہوں پر گئے اور نہ ہی کنگ سے ان کا کوئی ذاتی تعلق تھا۔ درحقیقت یہ باتیں بے معنی ہیں۔ ایلڈرمین کہتے ہیں کہ “اُن کی بعض تعلیمات بہت وسیع اور جامع اور مشمولہ ہیں اور قوم کا بڑا حصہ اُن [تعلیمات] سے متاثر ہے۔ ہمارے ہاں بہت ساری ایسی کاؤنٹیاں اور سڑکیں ہیں بلکہ شہر ہیں جو جارج واشنگٹن کے نام سے منسوب ہیں۔ ہمارے ہاں لنکن کے نام سے منسوب جگہیں ہیں۔ یہ سب شخصیات کبھی بھی ان سب مقامات پر نہیں گئیں۔ تاہم انہوں نے قومی سطح پر یاد کی ایک ایسی بنیاد فراہم کی جس نے بعض طبقات کو متحد کرنے کا کام کیا۔”

کنگ کس چیز کی علامت ہیں

درختوں میں سے گزرتی ہوئی سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں (© Charlie Riedel/AP Images)
2021 میں کینسس سٹی، مزوری کے پارکوں اور تفریحات کے بورڈ نے ‘فائیو مائل پارک وے’ کا نام تبدیل کر کے اس کا نام ‘کنگ پارک وے’ رکھا۔ (© Charlie Riedel/AP Images)

کنگ اور شہری حقوق کے دیگر لیڈروں نے 1963 میں ملازمتوں اور آزادی کے لیے واشنگٹن کی جانب مارچ کیا۔ اس مارچ نے شہری حقوق کے قانون مجریہ 1964 کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت امتیازی سلوک پر پابندی لگی۔ اسی مارچ کے نتیجے میں 1965 کا ووٹنگ کے حقوق کا قانون منظور ہوا جس کے بعد اُن ہتھکنڈوں کو خلاف قانون قرار دیا گیا جن کے ذریعے سیاہ فاموں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا جاتا تھا۔

کنگ کو 1964 میں امن کا نوبیل انعام  دیا گیا۔ ایلڈرمین کا کہنا ہے گو کہ کنگ کے بارے میں عوامی سطح پر کی جانے والی بحث میں توجہ نسلی مساوات کی خاطر کی جانے والی اُن کی عدم تشدد پر مبنی جدوجہد پر مرکوز ہونے لگتی ہے تاہم انھیں مزدوروں کے حقوق اور معاشی انصاف پر کیے گئے اُن کے کام کے لیے بھی یاد رکھا جانا چاہیے۔ وہ کنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “آپ ان کا ذکر کیے بغیر امریکہ میں شہری حقوق اور مساوات کے لیے جدوجہد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ مگر تمام جگہوں کے ناموں کو دیکھنے والوں کو یہ سوال  پوچھنے کی تحریک دینا چاہیےکہ کیا ہمیں اس بات کا درست اور مکمل ادراک ہے کہ کنگ کون تھے اور وہ کس چیز کی علامت تھے؟”