1794 میں کپاس پیلنے کی مشین آئی اور آج 2018 میں کپاس کا خوردنی بیج آ گیا ہے۔ پہلی چیز نے کپڑے کی صنعت میں انقلاب برپا کیا، کیا دوسری شے غذا میں کوئی انقلابی تبدیلی لے کر آئے گی؟
امریکی محکمہ زراعت نے حال ہی میں کپاس کے پودے کی ایک نئی قسم کو تجارتی بنیادوں پر اگانے کی اجازت دی ہے جو بہت بڑی مقدار میں خوردنی بیج پیدا کرتا ہے۔ ٹیکسس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں محققین کی ایک ٹیم نے کپاس کے بیج کو زہریلا بنانے والا عنصر ختم کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنس دان کیرتی راٹھور کا کہنا ہے کہ اگر کسان بڑے پیمانے پر یہ بیج بونا شروع کر دیں تو اس سے دنیا میں بھوک کا شکار 821 ملین لوگوں میں نصف سے زیادہ کی پروٹین سے متعلق غذائی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
راٹھور، ماہر زراعت اور ”بابائے سبز انقلاب” آنجہانی نارمن بورلاگ کے شاگرد ہیں جنہوں نے بیماریوں کے خلاف مزاحم گندم تیار کی تھی جو کاشتکاری میں بنیادی تبدیلیاں لائی اور دنیا بھر میں کروڑوں نادار لوگوں کو خوراک کے حصول میں مدد ملی۔
1960 کی دہائی میں بھارت کے صوبے راجستھان میں پرورش پانے والے راٹھور اپنے والد کے دیہی کلینک پر ناقص غذائیت کے مسئلے کا براہ راست مشاہدہ کر چکے ہیں اور بھارت میں سبز انقلاب کا معجزہ رونما ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ 1995 میں راٹھور نے بورلاگ کی شاگردی کے لیے ٹیکساس اے اینڈ ایم کا رخ کیا۔
راٹھور کہتے ہیں، ”اس منصوبے کے ابتدائی برسوں میں تمام تر مشکلات اور مالی وسائل کی کمی کے باوجود انہوں نے ہی کام جاری رکھنے کے میں میری حوصلہ افزائی کی۔”
ٹیکساس اے اینڈ ایم کے سائنس دانوں نے حیاتیاتی ٹیکنالوجی کے ذرائع سے کام لیتے ہوئے کپاس کی ایسی متعدد اقسام پیدا کیں جن میں ‘گوسیپول’ کی مقدار معمول سے کہیں کم تھی۔
‘گوسیپول’ فطری طور پر پیدا ہونے والا ایک ایسا مرکب ہے جو کپاس کے پودوں کو کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے مگر ان کے بیجوں کو زہریلا بنا دیتا ہے۔

کپاس کی کٹائی کے بعد اس کے بیج کو بڑی حد تک فصل کی بے کار ضمنی پیداوار سمجھا جاتا ہے۔ کسان بیجوں سے تیل نکال سکتے ہیں اور بھوسے کو مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گایوں کے معدے ‘گوسیپول’ کو بحفاظت ہضم کر لیتے ہیں مگر انسان اور دیگر جانور ایسا نہیں کر سکتے۔
راٹھور کا کہنا ہے، ”یہ پروٹین کی بہت بڑی مقدار ہے جسے ہم براہ راست انسانی غذا کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔”
راٹھور کی تحقیق کے ایک حصے کی مالی معاونت کرنے والے صنعتی گروپ’ کاٹن کارپوریشن اِنک ‘میں تحقیق اور مارکیٹنگ کے ڈائریکٹر ٹام ویڈیجیٹنر کہتے ہیں، ”پانچ سال میں 5 ملین ایکڑ پر یہ فصل اگانا ہمارا ہدف ہے۔”
راٹھور کے مطابق بھارت، چین اور بعض افریقی ممالک کی جانب سے ان کی ٹیم کی تیار کردہ حیاتیاتی ٹیکنالوجی میں بے حد دلچسپی لی جا رہی ہے۔
بعض ممالک میں حیاتیاتی ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع سے تبدیل شدہ فصلوں اور بیجوں پر پابندی ہے۔ مگر راٹھور کا کہنا ہے کہ ”میرے خیال میں یہ کچھ وقت کی بات ہے جس کے بعد ہر ملک اسے قبول کر لے گا۔”
