
امریکی خلا باز کیٹ رُوبنز جب زمین پر تھیں تو انہوں نے ایبولا جیسی مہلک بیماری پر تحقیق کی۔ اب جبکہ وہ خلا میں کرہ ارض کے گرد چکر لگا رہی ہیں تو وہ اس بات کے تعین میں مدد کر رہی ہیں کہ آیا انسان خلا میں زندگی گزار سکتے ہیں … اور ہو سکتا ہے کہ اس تحقیق کے دوران انسان کو مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں مدد مل جائے۔
آج کل خلابازوں کو خلا میں جمع کیے ہوئے نمونوں کو منجمد کرکے جانچ پڑتال کے لیے واپس زمین پر بھیجنا پڑتا ہے۔ ان نمونوں میں ان کے اپنے جسم سے تعلق رکھنے والی چیزیں یا پھر ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جو شاید کبھی مریخ جیسے کسی سیارے پر مل جائیں۔ لیکن بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں روبنز، ڈی این اے کو ترتیب دینے والی ایک نئی قسم کی مشین کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کریں گی کہ آیا یہ مشین خلا میں جینیاتی مواد کا تجزیہ کرسکتی ہے۔
اگر مذکورہ مشین یہ کام کرسکی تو پھر مستقبل کے مشن، خلائی سفر کے دوران خلابازوں کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بہتر معلومات سے استفادہ کر سکیں گے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے ممکنہ طور پر اس مشین کے ذریعے ڈی این اے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی زندگی کے آثار کا پتہ چلانے کے لیے مریخ سے لائے جانے والے نمونوں کو ٹسٹ کیا جائے گا۔
ڈی این اے، ڈی اوکسیریبو نیوکلک ایسڈ کا مخفف ہے۔ یہ سالموں کی ایک ایسی زنجیر ہے جس میں زندہ اجسام کی تشکیل اور افزودگی کے لیے ہدایات محفوظ ہوتی ہیں۔ جینز ڈی این اے سے ہی بنتی ہیں۔
روبنز ایک “مِنین ڈی این اے سیکونسر” کو ٹسٹ کر رہی ہیں۔ خلیوں میں موجود ڈی این اے کے سالموں کی ترتیب کا پتہ چلانے والا یہ ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو سائز میں سمارٹ فون کے تقریباً نصف کے برابر ہے۔
اگر خلا باز خلا میں ڈی این اے کی ترتیب کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو گئے تو سائنس دانوں کے لیے موقع پر یہ معلوم کرنا ممکن ہو جائے گا کہ انسانوں اور خلیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
روبنز کا کہنا ہے، ’’یہاں اوپر ٹیکنالوجی مختلف طریقے سے کام کرتی ہے۔ اوپر مائع اشیاء بھی مختلف طریقے سے کام کرتی ہیں۔ ان میں بلبلے بن جاتے ہیں۔ لہذا یہ آلہ اس لحاظ سے جانچ پڑتال کرنے اور سمجھنے کے لیے واقعتاً دلچسپی کا باعث ہوگا۔‘‘
اس مضمون کی تیاری میں وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔