کیلی فورنیا یونیورسٹی کی نابینا طلبا کو متاثر کرنے والی ‘غار’

ایک آدمی نابینا افراد کے بریل پینل والے کمپیوٹر کا
(© Shutterstock.com)

امریکہ میں نابینا اختراع کاروں کی ایک نسل نے اپنی کامیابی کے سفر کا آغاز ایک “غار” سے کیا۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے جس کمرے میں نابینا طلباء بیٹھ کر پڑہا کرتے تھے وہ ‘ نابینا طلباء کے مطالعے کا مرکز’ کہلاتا تھا۔ تاہم جو طلباء مافِٹ لائبریری کے تہہ خانے میں واقع اس کمرے کو استعمال کرتے تھے وہ اسے  The Cave [غار] کہتے تھے۔

تنگ جگہ، پرانا فرنیچر اور کافی اور کتابوں کی رچی بُو کی وجہ سے اس کمرے کو ‘غار’ کا عرفی نام دیا گیا۔

 مافِٹ لائبریری کے سامنے سے گزرتے ہوئے لوگ (© UC Berkeley Library)
“دا کیو” [غار] کیلی فورنیا یونیوسٹی کے برکلے کیمپس کی مافِٹ لائبریری کے تہہ خانے میں واقع تھی۔ (© UC Berkeley Library)
1980 کی دہائی کے آخر میں وہاں تعلیم حاصل کرنے والے متعدد طلباء میں شامل ایک، جوشوا مائلی بھی تھے۔ انہوں نے بوسٹن گلوب میڈیا کی قائم کردہ “ایس ٹی اے ٹی” نامی کمپنی کو بتایا کہ “یہ وہ جگہ ہے جہاں چمگادڑیں اکٹھی ہوا کرتی تھیں۔”

فزکس میں ماسٹر کرنے والے مائلی کے سفر کا آغاز یہیں سے ہوا۔ 1990 میں معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون کے تحت عوامی سہولیات میں امتیازی سلوک کے ممنوع قرار دیئے جانے سے پہلے، اس غار نے مائلی اور دیگر نابینا طالب علموں میں کمیونٹی اور قدروقیمت کا احساس پیدا کیا۔

ٹیکنالوجی نے تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشی

اس  مرکز کی چابیاں طلباء کے پاس ہوا کرتی تھیں تاکہ وہ نئے تصورات کی تلاش کے لیے دن رات جب چاہیں مطالعہ کے لیے یہاں آ سکیں۔ ایک فائدہ: اُس زمانے میں خصوصی ٹیکنالوجی کا اتنا بڑا ذخیرہ آسانی سے کسی دوسری جگہ دستیاب نہیں تھا۔

نابینا طلباء بولنے والے کمپیوٹر کے ٹرمینل پر تلاش کی اصطلاحات ٹائپ کرتے تھے اور یہ کمپیوٹر انہیں لائبریری کی کتابوں کی فہرست اور ڈیٹا بیس سے کتابیں، مضامین اور دیگر مواد پڑھ کر سناتے تھے۔ یہ بات انٹرنیٹ تک آسان رسائی سے کئی برس پہلے کی ہے۔

مائلی اور غار کے ایک اور سابق طالب علم، مارک سٹن نے بعد میں برکلے سسٹمز کے ” آؤٹ سپوکن” نامی سکرین ریڈر پر اکٹھے مل کر کام کیا۔

آج مائلی ‘سڑکوں کے ہاتھوں کے لمس کے ذریعے پڑھے جانے والے نقشوں’ جیسے نابینا اور کمزور بینائی کے شکار افراد کے استعمال کے لیے آلات تیار کرتے ہیں۔ ا نہوں نے 2021 میں ٹیکنالوجی ڈیزائنر کی حیثیت سے اپنی کامیابیوں کی بنا پر میک آرتھر فاؤنڈیشن کی فیلوشپ جیتی جسے عام طور پر “جینئس گرانٹس” [نابغوں کا انعام] کہا جاتا ہے۔

سٹن ‘ایپل انک’ کے لیے سافٹ ویئر کی خرابیوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں دور کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر نابینا افراد کو سمارٹ فون اور کمپیوٹر استعمال کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

 تصویری مجموعہ (© Lighthouse for the Blind and Visually Impaired; © BORP; © National Disability Institute; © James A. and Catherine T. Foundation)
بائیں سے دائیں: برائن بیشین، لوری گرے، تھامس فولی اور جوشوا مائلی (© Lighthouse for the Blind and Visually Impaired; © BORP; © National Disability Institute; © James A. and Catherine T. Foundation)

مائیلی اور سٹن، دونوں اختراع سازوں اور تبدیلی لانے والوں کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ‘دا کیو’ [غآر]  میں بیٹھ کر پڑھائی کی۔ دیگر لوگوں میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں:-

  • برائن بیشین، سان فرانسسکو کی ‘ لائٹ ہاؤس برائے نابینا اور کمزور بینائی والے افراد’ نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور ‘ یو ایس ایبلٹی ون کمشن’ کے رکن ہیں۔  یہ کمشن وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے ٹھیکیداروں کی اپنے ہاں نابینا یا دیگر معذور افراد کو ملازم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
  • لوری گرے، برکلے میں “بے ایریا کے عوامی رابطے اور تفریحی پروگرام” کی پروگرام مینیجر ہیں۔ اس پروگرام کے تحت معذور افراد کو تفریحی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
  • تھامس فولی، واشنگٹن میں معذوروں کے قومی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرہیں۔ یہ ادارہ مربوط مسابقتی ملازمتوں کو فروغ دیتا ہے اور معذور افراد کو مالی خوشحالی حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
  • فاطمہ حقیقی، نیو یارک سٹی کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال میں آئیکان میڈیکل سکول میں دماغی سائنس کی پروفیسر ہیں۔

مائلی نے کہا کہ یو سی برکلے میں اُن کا زمانہ وہ وقت تھا جب “میں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ میں ایک بہت بڑی، اور تاریخ، ثقافتی تناظر اور شناخت کی دولت کے حامل لوگوں کی ایک بہت خوبصورت کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ میں اپنے آپ کو خوبیوں سے مالا مال برکلے کے معذوروں کی کمیونٹی کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں۔”