چالیس سال قبل صدر جمی کارٹر نے مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم مینیخم بیگن کی ریاست میری لینڈ کے دیہی علاقے کیمپ ڈیوڈ میں تفریحی صدارتی مقام پر میزبانی کی۔
جدید دور کے مصری اور اسرائیلی وہاں پر ہونے والی پیشرفت کے ثمرات ابھی تک سمیٹ رہے ہیں۔
کارٹر کی ثالثی میں سادات اور بیگن کے درمیان 12 دن تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں نے 17 ستمبر 1978 کو کیمپ ڈیوڈ سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ ان کے نتیجے میں سادات اور بیگن کو امن کا مشترکہ نوبیل انعام ملا اور 1979 میں ہونے والا مصر اور اسرائیل کے درمیان امن کا معاہدہ طے پایا۔
مشرقِ قریب کی پالیسی کے لیے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطی سے متعلق پالیسی کے ایک ماہر مائیکل سنگھ بتاتے ہیں کہ کس طرح اس معاہدے نے خطے کے سیاسی منظرنامے کی صورت گری کی۔
وہ کہتے ہیں، “کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے مصر اور اسرائیل اور وسیع تر خطے کو کم و بیش مستقل تصادم کی حالت سے نکال کر امن کے قیام کے دور کی انتہائی اہم تبدیلی کی طرف لے کر آئے۔ گو کہ خطے میں اب بھی شدید مسائل پائے جاتے ہیں تاہم یہ سمجھوتے تمام فریقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے بہت بڑی خوشحالی لانے میں مددگار ثابت ہوئے اور اور اِن سے علاقائی امن اور استحکام کو درپیش ایک بہت بڑے خطرے کا خاتمہ ہوا۔”
کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے ہونے سے قبل کے برسوں میں مصر اور اسرائیل کے درمیان چار بڑی جنگیں ہوئیں۔ اس کے بعد آنے والے 40 برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان امن قائم رہا جس سے بے شمار جانیں بچیں۔
ان سمجھوتوں میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ مصر اور اسرائیل دونوں اپنے بنیادی مقاصد حاصل کریں۔ مصر کو جزیرہ نمائے سینائی واپس ملا جس پر اسرائیل نے 1967ء میں ہونے والی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا جب کہ پہلی مرتبہ کسی عرب ریاست کی جانب سے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا۔
اِن سمجھوتوں سے امریکہ اور ان معاہدوں کے فریقین کے درمیان مضبوط قسم کے سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات وجود میں آئے۔ سنگھ کہتے ہیں، “آج مصر اور اسرائیل دونوں نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا بھرمیں سکیورٹی کے معاملات میں امریکہ کے قریب ترین شراکت کار ہیں۔”
گزشتہ 40 سال میں مصر اور اسرائیل نے ایک دوسرے کے ساتھ زرعی ٹکنالوجی، سیاحت اور توانائی کے فروغ میں اہم تعلقات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں بھی تعاون کیا ہے۔

‘ہاں’ تک پہنچنے تک اور اس کے بعد کے نتائج
اب تو اِن سمجھوتوں کے فوائد سمیٹنے کو عام سی بات سمجھا جاتا ہے مگر جب کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات ہو رہے تھے تب نتائج کے بارے میں انتہائی بے یقینی پائی جاتی تھی۔
تاہم کارٹر اپنے اس ارادے کے لیے پرعزم تھے کہ دونوں فریقوں کو کسی سمجھوتے پر پہنچنا چاہیے۔ لہذا انہوں نے اکثر کشیدگی سے پُر اِن مذاکرات میں ذاتی سوچ سے کام لیا۔
وہ اسرائیلی وزیر اعظم مینیخم بیگن کو مستقبل کے حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر غور کرنے کی جانب بڑھنے کے لیے اُن سے اُن کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی خیریت پوچھا کرتے تھے۔ کارٹر سادات اور بیگن کو گیٹیز برگ کے نیشنل ملٹری پارک بھی لے کر گئے جس کا مقصد امریکی خانہ جنگی کو مصر اور اسرائیل کی مخاصمت کی تشبیہہ کے طور پر پیش کرنا تھا۔
سنگھ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ سمجھوتے عرب اسرائیلی اختلافات کو بالکل تو ختم نہ کر سکے تاہم اس معاہدے نے 21ویں صدی کے سفارت کاروں کے لیے ایک ایسی ابتدا کر دی جس کی بنیاد پر وہ معاملات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، “کیمپ ڈیوڈ کا سمجھوتہ امن کے قیام کا ایک ایسا نمونہ ہے جو آج کے حالات سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر معمولی درجے کے درپیش مسائل سے اوپر اٹھ کر مستقبل میں دیکھنے کی اہلیت کو پرعزم قیادت کے ساتھ ملایا جائے اور امن اور استحکام کے اُن فوائد کو ذہن میں رکھا جائے جو وہ لے کر آتے ہیں تو مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھوتے”ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ سفارت کاری نہ صرف جنگ کا خاتمہ کرتی ہے بلکہ تمام متعلقہ فریقوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خوشحالی لے کر آتی ہے اور مواقع پیدا کرتی ہے۔