جب 10 سال قبل کیتھی پیکو اپنے ٹخنوں میں ایک نادر قسم کے نرم بافتوں کے کینسر کا کیموتھریپی کے ذریعے علاج کروا رہی تھیں تو انہوں نے ایک ایسا کاروبار شروع کرنے کا خواب دیکھا جس کے ذریعے اس خاص قسم کے کینسر سے صحت یاب ہونے والوں کی صحت کی نگرانی کی جا سکے۔
لیکن ایکویڈور کے شہر کوئٹو کی 48 سالہ پیکو کو اپنے خیال کے بارے میں کوئی پرجوش حامی نہ مل سکا۔ اس کے باوجود وہ رکی نہیں۔ انہوں نے ایکویڈور کے معذوریوں کے قانون کا مطالعہ کیا اور خود سے کہا کہ اگر انہوں نے کینسر کو شکست دے دی تو وہ معذوروں کی مدد کریں گی اور دوسروں کو اپنی آپ بیتی سنائیں گی۔
“میں نے اسی لمحے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اگر میں زندہ بچ گئی تو میں اپنے حالاتِ زندگی بیان کروں گی تاکہ جس کسی کو بھی جدوجہد جاری رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہو تو میرے حالات سے امید پا سکے کہ وہ ایک بہتر خواب دیکھنے میں کامیاب ہوگا/گی۔”
پیکو نے 2010ء میں کینسر کی مرض کو شکست دی مگر وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں۔ ان کی بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی تھی اور انہیں مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلنا سیکھنا پڑا۔ اس میں سالوں کا عرصہ لگا۔ تاہم 2016 میں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا اور اس کا نام “پرویکتو کیتھی پیکو” رکھا۔
“پرایکتو کیتھی پیکو” کا وجود اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایکویڈور میں معذوریوں کے حامل افراد اپنے حقوق سے واقف ہوں اور یہ کہ معذوریوں کے حامل ملازمین کے بارے میں کمپنیاں اپنی قانونی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔ یہ کاروبار روزگار کے ایسے مواقع بھی پیدا کرتا ہے جن میں ملازمت کے متلاشی معذوریوں کے حامل افراد کو آجروں سے ملایا جاتا ہے۔
پیکو کوہ پیمائی کے ساتھ ساتھ بلندیوں پر چڑہتی رہتی ہیں۔ وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے لیکچر دیتی ہیں اور اُن کی اس بات پر ہمت بندھاتی ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیوں اور خوابوں کی تعبیر کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔

امریکہ سے مدد
اپنا پراجیکٹ شروع کرنے کے فوراْ بعد پیکو کاروباری خواتین کی اکیڈمی میں چلی گئیں جو امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے چلائے جانے والے ایک پروگرام کا حصہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت کاروباری خواتین کی ذاتی طور پر اور آن لائن کلاسوں کے ذریعے سرپرستی کی جاتی ہے۔ 2017 سے لے کر اب تک ایکویڈور میں امریکہ کا سفارت خانہ اس پروگرام کے تحت 10 شہروں میں 500 خواتین کو تربیت دے چکا ہے۔
اس پروگرام میں شرکا سرمائے کا بندوبست کرنا، میل جول کے لیے نیٹ ورک بنانے اور کاروباری منصوبے تیار کرنا سیکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی مشیر، ایوانکا ٹرمپ نے حال ہی میں کولمبیا میں کاروباری نظامت کار خواتین کے لیے ایک اکیڈمی کے قیام میں مدد کی۔ محکمہ خارجہ 65 سے زائد ممالک میں اسی نوع کے ادارے قائم کرنے پر عمل کر رہا ہے۔
اس پروگرام سے پیکو کو اپنے تئیں اس بات پر یقین کرنے میں مدد ملی کہ اُن کا کاروباری منصوبہ قابل عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے انہیں حوصلہ ملا کہ وہ کئی لحاظ سے اپنی کوشش جاری رکھیں۔ ایکویڈور میں معذوریوں کے حامل افراد کو اکثر و بیشتر، بلکہ بذات خود وہ لوگ بھی، حالات سے مجبور سمجھا جاتا ہے۔ مگر پیکو کو اس خیال سے تحریک ملتی ہے کہ وہ اس کے برعکس ہیں اور وہ کامیاب ذہین لوگ ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں ایکویڈور میں امریکی سفیر، مائیکل جے فِٹز پیٹرک کے ہمراہ روکو پنچنچا نامی آتش فشانی چوٹی سر کی۔ نومبر 2019ء میں انہوں نے نیویارک سٹی میراتھن (لمبی دوڑ) مکمل کی۔ اس طرح انہوں نے تقریباْ ایک دہائی پہلے اپنے آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔
پیکو کا کہنا ہے کہ جب وہ دوڑ رہی تھیں تو اُن کی حسیات پوری طرح کام کر رہی تھیں۔ انہیں باہر ٹھیلوں پر بھنے جانے والے گوشت اور پیاز کی خوشبو آ رہی تھی اور انہیں اُن ہزاروں لوگوں کے چہرے دکھائی دے رہے تھے جو ان کی ہمت افزائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ اختتامی لائن کو عبور کرتے ہوئے انہیں فرینک سناٹرا کے اس مشہور گانے کی آواز سنائی دی: “نیویارک، نیویارک۔”
پیکو کہتی ہیں، “آخر میں، مجھے احساس ہوا کہ ہر ایک چیز قابل قدر ہے اور میں اپنی مکمل صحت اور زندگی کے ہر دن کے لیے مشکور ہوں۔”
یہ مضمون فری لانس لکھاری، لینور ٹی ایڈکنز نے لکھا۔