کینسر کی بیماری کے مقابلے کے ذریعے دوسروں کی راہنمائی کرنا

ٹریسا فیریرو تصویر کھچوانے کے لیے کھڑی ہیں (Courtesy of Teresa Ferreiro)
اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینیورز کی سابقہ طالبہ ٹریسا فیریرو نے کوچنگ کی اپنی مہارتوں اور کینسر سے لڑنے کے لیے ایک ایسا کاروبار شروع کیا جو کینسر سے صحت یاب ہونے والوں اور کینسر کے مریضوں کی مدد کرتا ہے۔ (Courtesy of Teresa Ferreiro)

ٹریسا فیریرو کو کینسر سے صحت یاب ہونے کے بعد افرادی قوت میں دوبارہ شامل ہوکر معمول کی زندگی گزارنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ سپین کے شہر اکرونیا کی رہنے والی فیریرو نے” سول ری کنیکٹ ” کے نام سے ایک آن لائن پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی تاکہ کینسر کے مریضوں اور اس بیماری سے صحت یاب ہونے والوں کی خوفناک اور اکثر تنہا کر دینے والا زندگی کا سفر طے کرنے میں مدد کی جا سکے۔

12 برس قبل فیریرو میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ “اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ کام پر واپس کیسے جانا ہے، دوسروں سے بات کیسے کرنی ہے، یا اپنے خوفوں کا سامنا کیسے کرنا ہے، تو حالات بہت مشکل ہو سکتے ہیں۔”

کینسر کے بعد فیریرو دیگر کاموں کے علاوہ ایگزیکٹو پروفیشنل کوچ کی حیثیت سے سند حاصل کرنا اور کمیونیکیشن میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہتی تھیں تاکہ وہ دوبارہ افرادی قوت کا حصہ بن سکیں۔ یہ صلاحیتیں “سول ری کنیکٹ” کی بنیاد بنیں۔ اس پلیٹ فارم سے مریضوں کی ڈاکٹروں کے پاس پہنچنے، غذائیت اور ورزش میں بہتری پیدا کرنے اور دوبارہ کام شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی تربیت اور دیگر وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔

 تصویر کھچوانے کے لیے کھڑا لوگوں کا ایک گروپ (U.S. Embassy Spain)
فیریرو کو اے ڈبلیو ای کی اپنی 2021 کی گریجوایٹنگ کلاس سے بہت مدد ملی۔ یہی وہ سال تھا جب فیریرو نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ اوپر کی تصویر میں وہ سامنے والی قطار میں بائیں سے پانچویں نمبر پر کھڑی ہیں۔ (U.S. Embassy Spain)

وہ اپنے کاروبار میں سائنسی تحقیق اور مریضوں کی آرا کی روشنی میں وضح کیے جانے والے طریقے استعمال کرتی ہیں۔ فریریرو اپنے کاروبار میں شخصی نمو کو پروان چڑہانے کے لیے  ویبی نارز اور مراقبوں کا انعقاد بھی کرتی ہیں۔ فیریرو نے بتایا کہ اس میں سب س اہم بات یہ ہے کہ “سول ریکنیکٹ” عورتوں کو بحالی صحت کے ذریعے با اختیار بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “مریض محض کوئی ایسا غیر فعال شخص نہیں ہوتا جو یا تو علاج کا یا دوسروں کی طرف سے فیصلے کیے جانے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اب مریض کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی  ہے اور وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرتا ہے۔”

وہ اپنی کامیابی کا سہرا محکمہ خارجہ کے کاروباری نظامت کار خواتین کے ” اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینیورز (اے ڈبلیو ای) نامی پروگرام کے سر باندھتی ہیں جس نے اُن کی ایک ایسا کاروباری منصوبہ تیار کرنے میں مدد کی جس میں اُن کے پیشہ ورانہ اور ذاتی تجربات کو شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس پروگرام سے انہیں “سول ریکنیکٹ” شروع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہ پروگرام عورتوں کو کاروبار شروع کرنے اور انہیں ترقی دینے کے لیے خواتین کو با اختیار بناتا ہے۔

اے ڈبلیو ای پروگرام کے 2019 میں شروع کیے جانے کے بعد دنیا بھر میں سولہ ہزار سے زائد عورتوں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ فیریرو کو اے ڈبلیو ای میں 2021 میں داخلہ ملا۔ یہ وہ وقت تھا جب کووڈ-19 وبا کی وجہ زیادہ سے زیادہ کمپنیاں آن لائن کاروبار کرنے پر مجبور ہو رہی تھیں۔ اے ڈبلیو ای کی کاروباری نظامت کارعورتوں کی آن لائن کمیونٹی نے فیریرو کی اس وقت مدد کی جب انہوں نے اقتصادی افراتفری کے دور میں اپنا کاروبار شروع کیا۔

 تصویریں کھچوانے کے لیے کھڑے لوگ (U.S. Embassy Spain)

فیریرو [درمیان میں] کی سربراہی میں ہونے والی اے ڈبلیو ای کی لیڈرشپ ورکشاپ کی۔ اس ورکشاپ میں جذباتی دباؤ پر توجہ مرکوز کی۔ (U.S. Embassy Spain)انہوں نے کہا کہ “میں جو چیز نہیں جانتی تھی اُس کی ایک مثال میرا مسلسل محور بنے رہنا تھا۔  یعنی کووڈ کی وجہ سے تین بار [کاروبار] شروع کرنا اور بند کرنا۔ تو یہ ایک ایسی کمیونٹی کا حصہ بننے جیسا تھا جہاں ہم سب اکٹھے ہوتے ہیں یا بصورت دیگر ہم بہت اکیلے محسوس کرتے ہیں.”

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے ڈبلیو ای نے انہیں “سول ریکنیکٹ” کو ترقی دینے کے امکانات کو حقیقت کا روپ دینے میں مدد کی۔ وہ ملازمین کے لیے فلاح و بہبود کے پروگرام پیش کرنے کی کوشاں کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں اور چاہتی ہیں کہ سپین کے علاوہ دوسرے ممالک کے مریضوں تک اور دیگر بیماریوں سے متعلق مواد کو شامل کیا جائے اور اس کا ترجمہ کیا جائے۔

فریرو نے کہا کہ “اس پروگرام نے مجھے بہادر بننے میں اور سوچنے میں مدد کی۔ بیشک اس میں کوئی نقصان نہیں۔  یہ میرا خیال ہے اور یہ خیال فائدہ مند ثابت ہوگا!'”

محکمہ خارجہ کا تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو یہ مضمون ایک مختلف شکل میں پہلے شائع کر چکا ہے۔