کیوبا، نکارا گوا اور وینیزویلا میں مذہب کی آزادی، مذہبی اظہار کو قابو کرنے پر تلی حکومتوں کے حملوں کی زد میں ہے۔
امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے منتظم، جان بارسا نے 20 اگست کو اِن تین ممالک میں مذہب کی آزادی پر ہونے والے ایک مباحثے میں کہا کہ اِن ممالک کے آمروں نے یا اُن کے طفیلیوں نے گرجا گھروں کو جلایا، عبادت گزاروں کو ہراساں کیا یا اُن پر آنسو گیس پھینکی۔
بارسا نے آن لائن ہونے والے اِس مباحثے کے شرکاء کو بتایا، “سیدھی اور سادا سی بات یہ ہے کہ یہ حملے انسانی حقوق کی صریحی خلاف ورزیاں ہیں۔ ہر مرد اور عورت کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ضمیر کی آزادی کے خدا داد حق کے مطابق عمل کرے۔” اس مباحثے کی میزبانی “آؤٹ ریچ ایڈ ٹو دی امریکاز” (امریکی براعظموں میں مدد کے لیے پہنچنا) نامی ادارے نے کی۔ میامی میں قائم یہ ادارہ جنوبی امریکہ اور کیریبیئن میں امداد فراہم کرتا ہے۔
بارسا نے کہا کہ مطلق العنان حکومتیں مضبوط مذہبی طبقات کو اپنی استبدادی حکمرانی کے لیے اکثر خطرے کی نظر سے دیکھتی ہیں۔

بارسا اور کیوبا میں امریکی سفارت خانے کی سابقہ ناظم الامور، مارا ٹیکاچ نے مذہبی گروہوں کے خلاف جابرانہ حکومتوں کی تادیبی کاروائیوں اور تشدد کی حالیہ مثالوں کے حوالے دیئے۔
بارسا نے کہا کہ کیوبا کی حکومت مذہبی لیڈروں کا پیچھا کرتی ہے، اُن پر حملے کرتی ہے اور انہیں ہراساں کرتی ہے اور سرعام اپنے عقیدے پر عمل کرنے والوں کو سزائیں دیتی ہے۔ حکومت اکثر عبادت خانوں کی تعمیر پر پابندیاں لگاتی ہے اور ایسی مذہبی عمارات میں عبادت کرنے سے منع کرتی ہے جو حکومت کے پاس سرکاری طور پر رجسٹر نہیں ہوتیں۔
مئی میں اقوام متحدہ نے کیوبا کی حکومت سے اس کے پادری ایلان ٹولیڈانو ویلیانٹے اور اُن کی جماعت کے خلاف جاری ہراسانی سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہیں ہراساں کیے جانے کی کاروائیوں میں اُن کے گرجا گھر کی عمارت کو تباہ کرنا، دھمکیاں دینا، سفری پابندیاں لگانا، من مانی گرفتاریاں کرنا، تفتیشیں کرنا اور جبری بے دخلیاں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے نام کیوبا کے 23 جولائی کے جواب کے مطابق کیوبا نے اِن الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ “سیاسی چالاکی” ہے اور مذہبی گروہوں کے لوگوں کو ایسے “زر خرید کارکن” قرار دیا جو حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، گو کہ کیوبا کے آئین میں مذہبی امتیاز برتنے کی ممانعت ہے، اس کے باوجود کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی مذہبی زندگی کے بہت سے پہلووں پر اختیار رکھتی ہے۔ مذہبی گروہوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کیوبا کی وزارت انصاف کے پاس رجسٹر کروائیں۔
Thank you @OutreachAid for today’s discussion about religious freedom and defeating tyranny. We’re here to speak truth to power, celebrate faith as a connector of people & an engine for change, and to call out these regimes for their crimes. Follow this thread to learn more! pic.twitter.com/VpcjpBSQZb
— JBarsaUSAID (@JBarsaUSAID) August 20, 2020
بارسا نے یہ بھی بتایا کہ نکاراگوا میں صدر ڈینیئل اورٹیگا کی حکومت ملک میں گرجا گھروں پر ہونے والے حالیہ حملوں کی ذمہ دار ہے۔ آگ لگانے والوں نے 31 جولائی کو ماناگوا میں کیتھولک میٹروپولٹن گرجا گھر کو نشانہ بنایا۔ اس سے ایک دن قبل دو چھوٹے گرجا گھروں کو بھی نذرآتش کیا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگرچہ نکاراگوا کی قومی پولیس کیتھیڈرل کی آگ کو حادثاتی سمجھتی ہے، تاہم مذہبی رہنما اس نتیجے کو مسترد کرتے ہیں اور گرجا گھر کی آتشزدگی کو ایک “سفاکانہ اور دہشت گردانہ” کاروائی قرار دیتے ہیں۔
بارسا نے نکاراگوا میں ہونے والی گرجا گھروں کی حالیہ آتشزدگیوں کے بارے میں کہا، “یہ کوئی اکا دکا واقعات نہیں ہیں اور نہ ہی حادثات ہیں۔ یہ اورٹیگا کے حمایت یافتہ جتھوں کے سوچے سمجھے دہشت گردانہ حملے ہیں۔”
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، نکاراگوا اور وینیزویلا کی حکومتوں نے مذبی طبقے کے خلاف جو انتقامی کاروائیاں کی ہیں اُن کی وجہ اِن طبقات کی حکومت پر کی جانے والی تنقید ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے مطابق، اورٹیگا حکومت کی طرف سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لیڈروں کو ناقدین سمجھتے ہوئے، ہراسانی، موت کی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بارسا نے کہا یکم مئی 2019 کو نکولس مادورو کے نیشنل گارڈ کے سپاہیوں نے ‘اوور لیڈی آف فاطمہ چرچ’ نامی گرجا گھر میں عبادت کرنے والوں پر آنسو گیس پھینکی اور بچوں والے خاندانوں اور ضعیف لوگوں نے عقبی دروازے سے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔
بارسا اور ٹیکاچ، دونوں نے کہا کہ اِن تینوں ممالک اور دنیا بھر کے دیگر ممالک میں مذہبی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ آمرانہ حکومتوں کی مذہبی لوگوں کے خلاف بربریت اور اُن کے خلاف چلائی جانے والوں مہموں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کو جاری رکھا جائے۔
ٹیکاچ نے کہا، “ہم دنیا کی آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ ہمیں اُن لوگوں کے خلاف دفاع کرنا ہے جو آمرانہ حکومت کی حمایت کرنے کے لیے مذہب کو مسخ کرتے ہیں۔”