کیوبا، نکارا گوا اور وینیزویلا کے عوام کی تقریر کی آزادی اُن کی ملکی کی حکومتوں کے حملوں کی زد میں ہے۔
24 نومبر کو وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے ٹوئٹر پر کہا، “اظہار رائے کی آزادی ایک انسانی حق ہے۔ امریکہ، کیوبا کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔”
کیوبا میں 9 اکتوبر کو کاسترو حکومت نے موسیقار ڈینس سولیس گونزالیز کو گرفتار کیا اور تین دن بعد اُنہیں نو ماہ کی قید کی سزا سنا دی جس کے نتیجے میں ہوانا میں احتجاج شروع ہوگئے۔ سولیس “سان اسیدرو تحریک” کے ایک بے باک رکن ہیں۔ یہ تحریک فن کاروں اور سرگرم کارکنوں کے ایک ایسے گروپ کی طرف سے چلائی جا رہی ہے جو کیوبا کی حکومت کے آزادانہ اظہار رائے کا گلہ گھونٹنے کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
سولیس کا جرم کیا ہے؟ اُن کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونے والے پولیس افسروں پر تنقید کرنا اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو پوسٹ کرنا۔
سولیس کی گرفتاری پر احتجاج کرنے اور آزادی تقریر کے حمایت کرنے کے لیے فن کاروں سے لے کر اداکاروں، موسیقاروں اور عجائب گھروں کے منتظمین تک، ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں شخصیات سان اسیدرو تحریک کے ساتھ یکجہتی کے طور پر اکٹھی ہو چکی ہیں۔
ایک غیرمعمولی پیش رفت میں کیوبا کی حکومت نے سان اسیدرو تحریک کے سرگرم کارکنوں سے یہ وعدہ کرتے ہوئے بات کرنے پر راضی ہو گئی کہ کھلے مذاکرات ہوں گے اور معمول کے مقابلے میں زیادہ برداشت سے کام لیا جائے گا۔

تاہم، جب مذاکرات ختم ہوئے اور احتجاج کرنے والے گھروں کو چلے گئے تو کیوبا کی حکومت اپنے وعدوں سے مکر گئی اور چند گھنٹوں میں پورے میڈیا میں احتجاج کرنے والوں پر حملے شروع کر دیئے۔
روئٹر کے مطابق کیوبا کی حکومت کے زیرانتظام چلنے والے ٹیلی ویژن چینل نے سولیس اور دیگر فن کاروں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف حملوں کا 90 منٹ کا ایک پروگرام چلایا۔
کیوبا کی حکومت نے اپنے جبر کو چھپانے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی روک دی، احتجاج کرنے والوں کو من مانی سے کام لیتے ہوئے گرفتار کیا، حامیوں سے پوچھ گچھ کی اور انہیں دھمکیاں دیں، اور اُن لوگوں کے خلاف میڈیا پر افتراپرداز حملے شروع کر دیئے جو زیادہ آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کیوبا کے جبر کی شکار ثقافتی برادری کی آواز کو دنیا میں پھیلانے کے لیے دنیا بھر کے فن کاروں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے یکجہتی کے طور پر احتجاجی مظاہرے کیے اور کیوبا کی ایک ایسی حکومت کی احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں پر مذمت کی جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی ایک خراب نمائندہ ہے۔
Legitimate gov’ts do not fear dialogue w/ their own people. The Cuban regime fears fulfilling agreements it made last week w/ Cuban artists & cultural figures as that would acknowledge their right to express themselves. Instead it represses & calls them mercenaries. Shameless.-MK
— Michael G. Kozak (@WHAAsstSecty) November 30, 2020
ٹویٹ:
مائیکل جی کوزیک:
قانونی حکومتیں اپنے عوام کے ساتھ بات چیت کرنے سے نہیں ڈرتیں۔ کیوبا کی حکومت اُن سمجھوتوں پر عمل کرنے سے ڈرتی ہے جو اُس نے گزشتہ ہفتے کیوبا کے فن کاروں اور ثقافتی شعبے کی شخصیات کے ساتھ کیے تھے کیونکہ اس کے نتیجے میں اُن کا اپنی رائے کے اظہار کا حق تسلیم کر لیا جائے گا۔ بے شرم۔ ایم کے
نکارا گوا میں اکتوبر میں “سائبر کرائمز” کا ایک قانون نافذ العمل ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ قانون اُن لوگوں کے لیے قید کی سزائیں لازمی قرار دیتا ہے جو “جھوٹی یا ایسی معلومات پھیلانے کے لیے” آن لائن پلیٹ فارموں کو استعمال کرتے ہیں جو “لوگوں میں خطرات پیدا کر سکتی ہوں۔” انسانی حقوق کے گروپ اس قانون کو تقریر اور پریس کی آزادیوں پر ایک حملہ سمجھتے ہیں۔
نکاراگوا کی قومی اسمبلی صدر ڈینیئل اورٹیگا کی آئین میں “نفرت انگیز جرائم” کے حوالے سے تجویز کردہ ترمیم پر بھی بحث کر رہی ہے۔
اگر یہ ترمیم منظور ہوگئی تو اس سے حکام کو ایسے لوگوں کو تاحیات قید کی سزائیں دینے کی اجازت مل جائے گی جن کے بارے میں حکام سمجھتے ہوں کہ وہ “نفرت انگیز جرائم” کے مرتکب ہوئے ہیں۔
جب اورٹیگا نے ستمبر میں ترمیم کی تجویز پیش کی تو اس نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ اُس کے مخالفین اور احتجاج کرنے والے طلبا ہی وہ لوگ ہوں گے جنہیں نام و نہاد نفرت انگیز جرائم کی پاداش میں تاحیات قید کی سزائیں دی جائیں گیں۔
جون 2019 میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ تشدد اور عدالتوں سے ماورا ہلاکتوں کے الزامات کا سامنا کرنے والے سکیورٹی فورسز کے ارکان کو دی جانے والی عام معافی کا حوالے دیتے ہوئے اورٹیگا نے کہا، “وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا کیونکہ انہیں عام معافی دے دی گئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے مگر (یاد رہے کہ) انہیں پہلے ہی عام معافی کا ایک موقع دیا جا چکا ہے اور انہیں دوسری مرتبہ عام معافی نہیں دی جائے گی۔”
2018ء میں اورٹیگا کی پولیس نے 700 افراد کو حراست میں لیا۔ یہ لوگ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور ان میں زیادہ تر طلبا تھے۔ حکومت نے 100 سیاسی قیدیوں کو بھی جیل میں بند کر رکھا ہے۔

اورٹیگا نے اِن کے بارے میں کہا، “یہ شیطان کی اولاد ہیں، یہ نفرت کی اولاد ہیں اور یہ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، اِن کی رگ رگ میں نفرت بھری ہے۔”
اورٹیگا کی آئینی ترمیم کی وجہ سے نکاراگوا کے شہری اس طرح کی رائے کا اظہار کرنے پر تاحیات قید کا سامنا کریں گے۔
وینیزویلا میں مادورو کی غیرقانونی حکومت اُن صحافیوں کو حراست میں لینا جاری رکھے ہوئےنہے جو حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

وینیزویلا کی قومی اسمبلی کی رکن، ماریہ کونسیپسیوں مولینو کہتی ہیں کہ گزشتہ برس 700 سے زائد ایسے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں جن میں صحافیوں اور اُن کی اشاعتوں پر حملے کیے گئے۔
غیر سرکاری تنظیم، ایسپاسیو پبلیکو کے صدر، کارلوس کوریا نے میڈیا کو بتایا، “وینیزویلا میں صحافیوں پر کیے جانے والے تشدد کی کسی کو کوئی قیمت نہیں ادا کرنا پڑتی۔ اگر پولیس کا کوئی افسر سڑک پر کسی صحافی کو مارتا ہے تو کوئی سرکاری اہل کار اس سے نہ تو کوئی سوال پوچھتا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایک مستقل خوف ہے۔”