کیوبا میں سیاحت کے لیے جانا حکومتی ظلم وجبر کو ہوا دینا ہے

تفریحی بحری جہاز کے سامنے چھتوں کے بغیر مشہور پرانی کاروں میں بیٹھے لوگ تصویریں اتار رہے ہیں۔ (© Ramon Espinosa/AP Images)
2018ء میں ہوانا میں سیاح مشہور پرانی کاروں میں بیٹھے تصویریں اتار رہے ہیں۔ حکومت کی نگرانی میں چلنے والے کاروباروں کی مدد کرنے سے، جابر حکومت کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔ (© Ramon Espinosa/AP Images)

کیوبا جانے، حتٰی کہ ‘رم’ نامی شراب اور سگار خریدنے سے ایک ایسی حکومت کو آمدنی ہوتی ہے جو اپنے لوگوں پر ظلم وجبر کرتی ہے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو برآمد کرتی ہے۔

ہوانا کے کسی ہوٹل میں ٹھہرنے والے سیاح یا اپنے ملکوں میں کیوبن سگار پینے والے اُس حکومت کی آمدنی کا ذریعہ بن رہے ہیں جو پریس کی آزادیوں پر سنگین پابندیاں لگاتی ہے اور وینیزویلا میں نکولس مادورو کی غیرقانونی حکومت کو تشدد کرنے کے طریقے سکھاتی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مغربی نصف کرے کے امور کے قائم مقام اسسٹنٹ سکریٹری، مائیکل کوزیک نے 27 جولائی کو ایک ٹویٹ میں کہا، “کاسترو کی معیشت کا انحصار نجی املاک کی چوری اور عوام پر کیے جانے والے ظلم و جبر پر ہے۔ حکومت کی تیار کردہ  ‘رم’ (شراب) اور سگار ایسی آسائشیں ہیں جو اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں انسانیت کی قیمت پر حاصل کیا جائے۔”

بروکنگ انسٹی ٹیوشن نے 2016 کی ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا ہے (پی ڈی ایف، 1.4 ایم بی) کہ کیوبا کی 69 فیصد سیاحتی آمدنی سرکاری طور پر چلائی جانے والی کمپنیوں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس جزیرہ نما ملک کے بڑے بڑے تمام سیاحتی ہوٹل کیوبا کی حکومت کی مالکیت ہیں۔ سیاحتی املاک جو حکومت کی ملکیت نہیں ہیں صرف وہ چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جن کے مالکان اپنے ساتھ سیاحوں کو کرائے پر ٹھہراتے ہیں۔

حتٰی کہ کیوبا کی انقلابی مسلح افواج نے “گروپو دو ایڈمنستراسیوں ایمپریسیریل اس اے”*  (جی اے ای ایس اے) کہلانے والی کمپنی کے ذریعے سیاحت کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔  بروکنگ انسٹی ٹیوشن کی رپورٹ کے مطابق، جی اے ای ایس اے کی ذیلی کمپنی، “گاوی اوتا” ہوٹلوں کے 40 فیصد سیاحتی کمروں کو کنٹرول کرتی ہے۔ گاوی اوتا پرانے ہوانا میں سیر کروانے والی ایجنسیاں، دکاںیں اور ریستوران بھی چلاتی ہے۔

روئٹرز کے مطابق کیوبا کی سگاروں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی  سینکڑوں ملین ڈالر میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیوبا کی حکومت کو ملک کی سگار کی صنعت پر بھی اختیار حاصل ہے۔

کیوبا کی حکومت نے 1959ء کے انقلاب کے بعد قوم کی معیشت کے گلے میں پھندہ ڈالا۔ اس سے اگلے سال فیڈل کاسترو کی حکومت نے تمباکو کی صنعت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت نے سگار بنانے والی فیکٹریوں، سگریٹ کے پلانٹوں اور تمباکو کے گوداموں پر  قبضہ کر لیا۔ انہوں نے کیوبا کے مقبول ترین برانڈوں سمیت، رم  (شراب) کی صنعت پر بھی قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں سابقہ مالکان ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ کاروباری مالکان کا یہ طرزعمل پوری معیشت میں دہرایا گیا۔

برسوں سے حکومت کی مالکیت کاروباروں سے ہونے والی آمدنی سے ایک جابر حکومت کو پروان چڑہایا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا 2020ء کی اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ حکومت ناقدین کو بدستور ہراساں کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں، جنوری تا اگست 2019 میں 1,800 من مانی گرفتاریوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کیوبا میں 109 سیاسی قیدی جیلوں میں بند ہیں۔

2020ء کی اسی رپورٹ میں، ہیومن رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ پولیس کا “لیڈیز اِن وائٹ” (سفید لباس والی عورتیں) نامی تنظیم کے اراکین کو ہراساں کرنا، زدوکوب کرنا اور حراست میں لینا ایک معمول بن چکا ہے۔ اس تنظیم کی بعض اراکین سیاسی قیدیوں کی رشتہ دار ہیں۔ اس سال کے اوائل میں، اس تنظیم کی ایک رکن کی، جو خود بھی ایک سیاسی قیدی ہیں، اقوام متحدہ نے فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ اِس قیدی خاتون کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے ساتھ جیل میں زیادتی کی گئی ہے۔

اسی طرح کیوبا کی فوج وینیزویلا میں مادورو کی وحشی حکومت کی مدد کرنے کے لیے دسیوں ہزاروں مشیر بھیجتی ہے۔ کیوبا سے بھیجے گئے مشیر مادورو کی جابرانہ پالیسیاں بنانے میں مدد کرتے ہیں، اُس کے حفاظتی دستے کے طور پر کام کرتے ہیں، اور تشدد کے طریقوں کے بارے میں اُس کی پولیس اور انٹیلی جنس افسروں کو تربیت دیتے ہیں۔

کاسلا انسٹی ٹیوٹ کی دسمبر 2019 کی رپورٹ کے مطابق، کیوبا کے اثرونفوذ سے وینیزویلا میں قیدیوں پر استعمال کیے جانے والے وحشیانہ تشدد کے طریقوں کو تقویت ملتی ہے۔

وینیزویلا کے عبوری صدر، خوان گوائیڈو نے روزنامہ میامی ہیرالڈ میں شائع ہونے والے اپنے ایک تبصرے میں کہا، ” مادورو حکومت روس اور کیوبا کی راہنمائی میں اور حوصلہ افزائی سے ہمارے شہریوں کو گرفتار کرتی ہے، اُن پر تشدد کرتی ہے اور حتٰی کے اُنہیں جان سے مار ڈالتی ہے۔ ہم روس اور کیوبا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد اور زیادتیوں کو بند کریں اور ہمارے ملک سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں.”