انسانی حقوق کے انتہائی برے ریکارڈ کے باوجود، کیوبا کی حکومت 2021 – 2023 کی مدت کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی نشست حاصل کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔

5 اگست کو وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، ” اگر انسانی حقوق کی کونسل کیوبا کو نشست پیش کرتی ہے تو یہ انتہائی اشتعال انگیز بات ہوگی۔ کیوبا ایک ایسی سفاک آمریت ہے جو انسان دوست مشنوں کی آڑ میں اپنے  ڈاکٹروں کی غیرقانونی سوداگری کرتی ہے۔”

2006ء میں تشکیل دی جانے والی اس کونسل کے 47 ممالک رکن ہیں۔ اکتوبر میں پندرہ نئے رکن ممالک منتخب کیے جائیں گے۔

سوئٹزرلینڈ میں’یو این واچ’ کے نام سے قائم ایک غیر سرکاری تنظیم، اقوام متحدہ کے منشور کو بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اقوام متحدہ  کی نگرانی کرتی ہے۔  یو این واچ نے کیوبا کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کی بنیاد پر اور انسانی حقوق کے معیارات کی پاسداری میں ناکامی کی وجہ سے، کیوبا کی کونسل کی امیدواری کو مسترد کرنے کی سفارش کی ہے۔

کیوبا کی حکومت اقوام متحدہ کے تشدد، آزاد اجتماعات، اظہار رائے کی آزادی اور من مانی حراستوں کے ماہرین کے کیوبا کے دوروں کی خاطر کی جانے والی درخواستوں کو بارہا مسترد کر چکی ہے۔

اپنے ایک تجزیے میں یو این واچ نے کہا، ” کیوبا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں یو این ایچ آر سی کو  سیاسی چکربازیوں کے لیے استعمال کرنے کا زیادہ ذمہ دار ہے۔ (اس نے) ایسی قراردادیں پیش کیں جن میں انفرادی انسانی حقوق کے مفہوم کو کمزور کرنے اور آمریت کو مضبوط بنانے کی کوششیں کی گئیں۔”

یو این واچ کے مطابق جب 2013 میں انسانی حقوق کی کونسل کیوبا کی امیدواری کا جائزہ لے رہی تھی تو کیوبا کی حکومت نے 454 ایسے طفیلی گروپ بنائے جنہوں نے حکومت کی تعریف میں جعلی بیانات جاری کیے۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

کیوبا کے ماہر حیاتیات اور سابق سیاسی قیدی ڈاکٹر ایریل روئز ارکیولا نے اقوام متحدہ میں اپنی نشست سنبھالی اور بات کرنا شروع کی۔ کیوبا اور ساتھی آمریتوں — چین، شمالی کوریا، اریٹیریا، وینزویلا — نے انہیں خاموش کرانے کی کوششیں کیں۔مگر آخرکار، ایریل نے کیوبا کے حقوق سے محروم کیے جانے والوں کے حق میں دنیا کی توجہ حاصل کر ہی لی۔

2020ء میں چین اور شمالی کوریا کی حمایت سے، کیوبا نے اقوام متحدہ میں طریقہ کار کے ضوابط کا سہارا لیتے ہوئے کیوبا کے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن کو اقوام متحدہ میں تقریر کرنے سے روک دیا۔

یو این واچ نے یہ بھی بتایا ہے کہ کیوبا آزاد یا منصفانہ انتخابات نہیں کرواتا، من مانی گرفتاریاں کرتا ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو دھمکیاں دیتا ہے۔ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ اور کسی کو سیاسی جماعت بنانے کی  اجازت نہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ کیوبا کی حکومت کے ناقدین بدستور جیلوں میں بند کیے جا رہے ہیں۔ اِن میں سے بہت سوں نے بتایا ہے کہ انہیں گرفتاری کے دوران مارا پیٹا گیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد  ہیں اور کیوبا کی حکومت نے انجمن سازی اور جمع ہونے کی آزادی پر بھی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

کیوبائی قیدیوں کا دفاع کرنے والی غیرسرکاری تنظیم نے کیوبا میں سیاسی قیدیوں اور ضمیر کے قیدیوں کا ایک ڈیٹا بیس بنایا ہوا ہے جس کے مطابق اس وقت 100 سے زائد افراد جیلوں میں قید ہیں۔

نسلی، سماجی، اور مذہبی گروپ بھی حکومتی جبر کا شکار ہیں۔ نسل، مساوات، اور انسانی حقوق کے انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ گو کہ سرکاری طور پر حکومت نسلی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا انکار کرتی ہے مگر کیوبا میں “افریقی النسل افراد کے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو بھی اُسی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس جزیرہ نما ملک کی حکومت کے مخالفین کو کرنا پڑتا ہے۔”

روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق سال 2019 کی “ایل جی بی ٹی آئی پرائڈ” (تفاخر) کی پریڈ کے شرکاء کو گرفتار کیا گیا اور کیوبائی حکام کی طرف سے اس تقریب کو ایک “اشتعال انگیزی” قرار دیا گیا۔

’21 ولبر فورس’ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کیوبا مغربی نصف کرے کا مذہبی آزادیاں پامال کرنے والا بدترین ملک ہے۔ کیوبا میں گرجا گھروں کے ممبروں کو گرفتار کیا گیا ہے، گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا ہے، اور مذہبی رہنماؤں کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔

سرحدوں سے آزاد رپورٹروں کے پریس کی آزادی کے اشاریے کے مطابق، کیوبا کا 179 ممالک کی فہرست میں 171واں نمبر ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر گروپوں نے کیوبا کی حکومت پر صحافی، روبرٹو کوینؤنیز کی جیل سے رہائی پر زور دیا ہے۔ کوینؤنیز 2019ء سے جیل میں قید ہیں کیونکہ انہوں نے کیوبا کی حکومت پر مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کے بارے میں خبریں دی تھیں۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

پین انٹرنیشنل

کیوبا: ہم، شاعر، وکیل اور آزاد صحافی روبرٹو دا جیسیئس کوئینؤنیز ہاسیئز کی فوری اور غیرمشروط  رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ صحافی ستمبر 2019 سے جیل میں قید ہیں۔

2019ء میں منظور کیے جانے والے قانون نمبر 370  میں کیوبائی شہریوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر کسی ایسے طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر جرمانوں اور قید کی سزائیں رکھی گئی ہیں جو کاسترو حکومت کے نقطہ نظر سے قابل اعتراض ہو۔ پریس کی آزادی کا گروپ، سرحدوں سے آزاد رپورٹرز سمجھتا ہے کہ یہ قانون “انٹرنیٹ پر اظہا رائے کی آزادی کو ختم کرتا ہے۔”

فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کیوبا کی درجہ بندی “آزادیوں کے بغیر” والے ملک کے طور پر کی گئی ہے۔ فریڈم ہاؤس کی اس رپورٹ کے مطابق کیوبا نے 2019ء میں اپنے شہریوں پر غیرملکی کمپیوٹر سروروں پر ویب کے مواد کو ‘ہوسٹ’ (میزبانی) کرنے پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے آزاد میڈیا کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

کیوبا کا بے انتہا طور پر انسانی حقوق کا خراب ریکارڈ، واضح ہے۔

پومپیو نے کہا، “کسی ملک کو بھی کیوبا کی کونسل کی رکنیت کے حق میں ووٹ نہیں دینا چاہیے۔”