چونکہ نئے کورونا وائرس نے خوردہ اشیا کی خرید و فروخت کو نقصان پہنچایا ہے لہذا اقتصادی ماہرین امریکی صارفین کے رویوں کا بڑے غور سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
بالآخر یہ صارفین ہی ہیں جنہوں نے ماضی کی کساد بازاری میں امریکی معیشت کو بڑھاوا دینے میں مدد کی ہے اور دنیا کے دیگر حصوں کی معیشتوں کو بھی انہوں نے ہی مضبوط بنایا ہے۔ دنیا کی پرچون کے کاروبار کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن، نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے تجزیہ کار مارک میتھیوز کہتے ہیں، “باقی ماندہ دنیا قطعی طور پر امریکی صارفین سے اور اس بحران کے ختم ہونے کی آس لگائے بیٹھی ہے کیونکہ ہم ایک آزاد معیشت ہیں۔”

امریکہ میں بالعموم اقتصادی سرگرمیوں میں صارفین کی خرید و فروخت کا حصہ تقریباً 70 فیصد ہوتا ہے۔ پرچون فروش حالیہ واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال کے مطابق اپنے آپ کو جس طرح ڈھالیں گے ہو سکتا ہے اس سے ہمیں اچھی سیل یعنی بِکری کی راہ پر لوٹنے کے امید افزا اعداد و شمار کے اشارے مل سکیں۔
میتھیو کہتے ہیں کہ “شیلٹر اِن پلیس” یعنی کورونا وائرس کے دوران گھروں کے اندر رہنے کے قانون سے پرچون کی دکانوں، دواؤں کی دکانوں، بڑے بڑے سٹوروں، ڈالر سٹوروں اور کوسٹ کو اور سیمز کلب جیسے پرچون فروشوں کو مدد ملی ہے۔ یہ سٹور ضروریات کی ایسی اشیا بیچتے ہیں جو امریکی شہری اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہیں تاکہ گھروں سے باہر جانے کی کم از کم ضرورت پیش آئے۔
مگر اب اِن سٹوروں کو بھی نئی سہولتیں فراہم کرنے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ کاروباری کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ میتھیو کہتے ہیں، “لوگ سٹوروں پر نہیں جانا چاہتے … لہذا ہمیں آن لائن (خریداری) کی جانب رخ مڑتا ہوا نظر آنے کے ساتھ ساتھ اشیا کی زیادہ تعداد میں خریداری بھی نظر آ رہی ہے۔” سٹوروں کو رسد کے نئے سلسلے ملتے جا رہے ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملا وہ تھوک کے حساب سے خریدی جانے والی چیزیں جمع کریں گے۔
لوز اور ہوم ڈپو جیسے تعمیراتی سامان اور گھریلو استعمال کی اشیا فروخت کرنے والے سٹوروں کی سیلز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گھر سے کام کرنے والے لوگ وہ وقت جو عام طور پر اپنے دفتروں میں آنے جانے میں صرف کرتے تھے، اب وہی گھر کے چھوٹے موٹے تعمیراتی کاموں پر صرف کر رہے ہیں۔ لہذا مذکورہ بالا دونوں سٹور اب یا تو اپنے سٹوروں کے باہر سڑک کے کنارے سے چیزیں اٹھانے یا سٹور کے اندر آ کر چیزیں اٹھانے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔
معمول کے دنوں سے بہتر کاروبار
امریکی صارفین کی جانب سے کی جانے والی بہت سی اشیا کی خریداری بیرونی ممالک میں ترسیلی سلسلوں کو براہ راست متاثر کر رہی ہے اور معاشی ماہرین کو حالات کے معمول پر آ جانے کے بعد شاپنگ (خرید) میں اچھے خاصے اضافے کی امید ہے۔

گو کہ بعض امریکی کمپنیوں کو صارفین کے رویوں میں آنے والی اچانک تبدیلی سے فائدہ ہوا ہے مگر بہت سی کمپنیاں اب اور مستقبل میں منافع کمانے کے نئے طریقے نکال رہی ہیں۔
بہت سی مسافر بردار فضائی کمپنیاں باربرداری یا دیگر کاموں کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال ‘سن کاؤنٹی ایئر لائنز” ہے۔ یہ ایک چھوٹی اور سستی ایئر لائن ہے جس نے آن لائن چیزیں فروخت کرنے والی کمپنی ایمیزون کے ساتھ گزشتہ برس اپنے طیاروں میں سامان لانے لے جانے کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ یہ ایئر لائن اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ وقتی طور پر کمپنی اپنے طیاروں کو ایسے استعمال کرے گی جس سے سیاحوں اور کاروباری مسافروں کی کمی سے ہونے والے نقصان کو کسی حد تک سامان کی باربرداری سے پورا کیا جا سکے۔
میری لینڈ کی ‘کینی پروڈیوس اینڈ گورمے’ 42 سال سے شیفس، ریستورانوں، کنونشنوں اور اسی طرح کے دیگر کاروباروں کو تازہ سبزیاں اور دیگر اشیائے خوردو نوش فراہم کرتی چلی آ رہی ہے۔ کیونکہ ریستورانوں اور بڑی مقدار میں کھانے فراہم کرنے کا کاروبار اب ختم ہوچکا ہے لہذا اس کمپنی نے بھی اپنا کاروبار کا طریقہ تبدیل کر لیا ہے۔ آج کل، کمپنی سڑک کے کنارے سے سامان اٹھانے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ گاہک ڈبوں میں بند کی گئی تازہ سبزیوں کا آن لائن آرڈر کرتے ہیں اور کینی کے واشنگٹن کے علاقے میں واقع 16 سٹوروں میں سے کسی ایک سٹور سے سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے یہ ڈبے اٹھا سکتے ہیں۔
کینی کی مارکیٹنگ مینیجر کیسیڈی ولیمز کہتی ہیں، “ہم آپ کے ایسے عام آدمی کی ضرورت پوری کرتے ہیں جو کسی سبزی کی دکان پر جائے بغیر تازہ سبزی چاہتا ہے۔” اس تبدیلی سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے کمپنی کو کاروبار میں رہنے اور حال ہی میں نوکری سے برخاست کیے جانے والی 20 ملازمین کو واپس ملازمت دینے میں مدد ملی ہے۔ جیسے ہی ریستوران کھلیں گے تو کینی کا براہ راست صارفین اور دیگر اداروں کے ساتھ کام دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔

صارفین کی گھر میں رہ کر خریدارنی کرنے کی ترجیح کی وجہ سے آن لائن چیزیں بیچنے والے چھوٹے دکانداروں کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ انہیں امید ہے کہ جب حالات معمول پر آئیں گے تو اُن کی سیل مزید بڑھے گی۔
یوم ارض والے دن اُن کی دکان کے افتتاح کے ایک گھنٹے کے اندر اندر آن لائن گھر کے اندر رکھے جانے والے پودے بیچنے والی کمپنی، گراؤنڈڈ کے تمام پودے بِک گئے۔ پورے ملک سے لوگ پودوں کا آرڈر دینے کے لیے اس سٹور کی ویب سائٹ پر جمع ہو گئے۔ یہ اس کی شریک بانی کے لیے ایک حیران کن بات تھی۔
اس کی مالکان، ڈینوئل ڈاس ویل اور مگنون ہمسلی کو امید ہے کہ وہ اس رفتار کو برقرار رکھ سکیں گیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کمپنی میں مختلف قسم کے پودوں کا اضافہ کریں گیں ، پودوں سے متعلقہ مشہور برانڈوں کے لوازمات فروخت کریں گیں، آن لائن گاہکوں کی ایک گملے سے دوسرے میں پودے لگانے میں مدد کریں گیں اور نئے گاہکوں کو مہینے میں دو مرتبہ ڈیجیٹل نیوز لیٹر بھیجا کریں گیں۔
ڈاس ویل کہتی ہیں ہم “کوئی بہت بھاری بوجھ نہیں ڈالنا چاہتیں۔ ہم لوگوں کو بے کار میسیج نہیں بھیجنا چاہتیں۔”
کووڈ-19 کے بعد کی مضبوط دنیا
میتھیو کہتے ہیں کہ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکی صارفین اپنے پرانے رویوں کی جانب کب لوٹیں گے۔ تاہم مارچ اور اپریل میں کانگریس کی طرف سے مالی آسانی کے بل کی منظوری اور صدر ٹرمپ کے دستخطوں سے اس بل کے قانون بن جانے سے صارفین اور کاروباروں کو یکساں طور پر مدد ملی ہے۔
بہت سے امریکی کاروباروں کو اس بات کا یقین ہے کہ آنے والے مہینوں میں اُن کی جدت طرازی اور لچک کی وجہ سے مزید گاہک اُن کی جانب راغب ہوں گے۔ وہ پرچون فروشی کے شعبے میں کام کرنے والی 52 ملین افراد پر مشتمل افرادی قوت کو بہتر بنیادوں پر کھڑا کر سکتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے ترسیلی شراکت داروں کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔