
صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے گرین کلائمیٹ فنڈ [جی سی ایف] کے لیے مزید ایک ارب ڈالر دے گا۔ یہ رقم بالخصوص موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنے والے ممالک کی مدد کرنے پر خرچ کی جائے گی۔
اِن ممالک میں سب سے کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے ترقی پذیر جزیرہ نما ممالک شامل ہیں۔
بائیڈن نے 20 اپریل کو کہا کہ “آپ سب جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ترقی پذیر ممالک سمیت سب سے زیادہ ان لوگوں کو محسوس ہوں گے جنہوں نے اس مسئلے کے پیدا ہونے میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے۔ ہمیں بڑی معیشتوں اور زیادہ آلودگی پیدا کرنے والوں کی حیثیت سے بہرصورت سامنے آنا اور اِن معیشتوں کی مدد کرنا چاہیے۔”
بائیڈن نے یہ اعللان توانائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑی معیشتوں کے فورم کے اجلاس میں کیا۔ فورم کا یہ اجلاس صدر بائیڈن نے بلایا تھا۔ اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے اور عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کے ہدف کو پہنچ میں رکھنے کے لیے لیڈر ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔
گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت پیدا کرنے اور نقصان پر قابو پانے اور صلاحتیں پیدا کرنے والے اشد ضروری پراجیکٹوں میں مدد کی جائے گی۔ اِن اقدامات کے تحت کمزور ممالک میں کام کرنے پر زور دیا جائے گا۔ موجودہ منظور شدہ پراجیکٹوں کا مقصد 2.5 ارب ٹن اخراجوں سے بچنا اور 900 ملین افراد کی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت برداشت میں اضافہ ہے۔

بائیڈن کا ایک ارب ڈالر کا وعدہ ترقی پذیر ممالک کے لیے امریکہ کی بین الاقوامی فنانسنگ کو 2024 تک چار گنا بڑھا کر 11 ارب ڈالر سالانہ تک کرنے کے لیے امریکی کانگریس کے ساتھ کام کرنے کا حصہ ہے۔
اب تک جی ایس ایف سے تعاون کرنے والے ممالک 18.3 ارب ڈالر کے وعدے کر چکے ہیں۔ اِن ممالک میں برطانیہ، فرانس، جاپان، جرمنی اور سویڈن بھی شامل ہیں۔ ایک ارب ڈالر کی اضافی رقم کے بعد امریکہ کی ٹوٹل امداد دو ارب ڈالر ہو جائے گی۔
گرین کلائمیٹ فنڈ کے قائم مقام ایگزیٹو ڈائریکٹر ہنری گونزالیز نے ایک بیان میں کہا کہ ” جی سی ایف صدر بائیڈن کے امریکہ کی طرف سے اچھی خاصی رقم دینے کے اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے۔ اس [رقم] سے کم سے کم ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کی [موسمیاتی تبدیلیوں] کے خلاف قوت برداشت میں اضافہ ہو گا، موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا سامنا کرنے والے چھوٹے جزیرہ نما ترقی پذیر ممالک کو تجفظ ملے گا، اور دنیا بھر میں کم اخراجوں اور موسمیاتی لچکد کی حامل ترقی کی جانب منتقلی میں مدد ملے گی۔”