
امریکی شوز ٹیلی ویژن کی صنعت کو دنیا بھر میں مقبول ثقافت کے طور پر پروان چڑہانے میں70 برس سے قیادت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس ابلاغی ذریعے کے ارتقاء کے حوالے سے امریکی شوز کو مندرجہ ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:-
- مزاحیہ خاکوں اور ڈراموں کا سنہری دور۔
- معاشرتی تبدیلیوں کے عکاس شوز کی ترقی۔
- ٹیلی ویژن کا جمہوریت میں ڈھلنا اور اس کے ساتھ آنے والے تنوع سے کیبل اور سٹریمنگ سروسوں میں تیزی سے اضافہ ہونا۔
سنہری دور (1950 کی دہائی)
تین امریکی نشریاتی نیٹ ورکوں (سی بی ایس، این بی سی اور اے بی سی) نے 1950 کی دہائی کے دوران اور اس کے بعد آنے والے برسوں میں عالمی معیارات قائم کرنے والے جدید پروگرام پیش کر کے غلبہ حاصل کیا۔

ابتدا میں بہت سے ٹیلی ویژن شو براہ راست نشر ہوا کرتے تھے۔ مگر ریکارڈ شدہ شوز کی آمد سے دوبارہ شوٹنگ ممکن ہوئی جس کے نتیجے میں اعلیٰ معیار کی پروڈکشنز، مکرر نشریات اور دوسری ٹیلی ویژن کمپنیوں کو نشریات کے حقوق کی فروخت ممکن ہوئی۔ مائیکل کیک مین ٹیلی ویژن کے مورخ اور انڈیانا یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس تبدیلی کا آغاز مزاحیہ خاکوں کے شو I Love Lucy (1951–1957) [آئی لو لوسی] سے ہوا جس میں حقیقی زندگی میں ڈیسی آرنز اور لوسیل بال کی بیوی خاوند کی جوڑی نے اداکاری کی۔
مزید برآں ” آئی لو لوسی” سے مزاحیہ خاکوں کی ڈرامائی صنف کا آغاز ہوا۔ آرٹس اور ڈیزائن کے سوانا کالج کی پروفیسر ڈینا شاکلی نے 1993 سے فلم اور ٹی وی ایڈٹنگ میں کام کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس میں “تین کیمروں کا وہ سیٹ اپ [نظام] بھی شامل تھا جو کئی دہائیوں تک اس صنعت کا معیار بنا رہا۔” تین کیمروں سے ایسے بڑے شاٹ فلمائے جا سکتے ہیں جن میں پورے پروڈکشن سیٹ کے علاوہ قریب سے فلمائے گئے شاٹس بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کسی ایک منظر کو دوبارہ فلمانے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔
شاکلی نے کہا کہ تین کیمروں کا استعمال لائیو [براہ راست] سامعین کو شامل کرنے کو ممکن بناتا ہے۔ “جب آپ کوئی مزاحیہ شو کر رہے ہوتے ہیں تو یہ [تین کیمرے] ضروری ہوتے ہیں کیونکہ اداکار سامعین کے رد عمل سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔”

“آئی لو لوسی” کا مرکزی کردار نیویارک کی ایک ایسی گھریلو خاتون کے گرد گھومتا ہے جس کی حماقتیں اس کے کیوبائی شوہر کے لیے جو کہ بینڈ لیڈر ہے نہ ختم ہونے والا سر درد بن جاتی ہیں۔ اس شو کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ اس دور کے دیگر مقبول شوز میں قانون/جرائم سے متعلق ڈرامہ “ پیری میسن” (1957–1966) شامل ہے جس کے کہانی سنانے کے فارمولے سے متاثر ہو کر “لا اینڈ آرڈر” (1990–2010) اور ” دی ٹوائلائٹ زون” (1959–1964) جیسے شوز تخلیق کیے گئے۔ موخرالذکر شو کی مافوق الفطرت چیزوں پر توجہ ” دا ایکس فائلز” (1993–2002) کی تخلیق کی بنیاد بنی۔
(1960-1980) کے دوران آنے والی تبدیلیوں پر ایک نظر
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ہالی ووڈ نے ایسے ٹی وی شو تخلیق کیے جنہوں نے بدلتے ہوئے امریکی معاشرے سے دنیا کو روشناس کرایا ۔ کیک مین اکثر کہتے ہیں کہ اِن شوز نے “کمیونٹی سازی کی ہماری ہمیشہ سے نامکمل کوشش کی توانائی کو اجاگر کیا۔”
اس کی ایک مثال سٹار ٹریک (1966–1969) ہے جو یو ایس ایس انٹرپرائز نامی خلائی جہاز کے کثیر القومی، کثیر النسلی عملے کے ذریعے تئیسویں صدی میں پرامن خلائی تحقیق سے متعلق سائنس کا ایک افسانوی ڈرامہ ہے۔ اس شو میں امریکی ٹی وی پر مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کا پہلا بوسہ دکھایا گیا اور ٹیلی ویژن کے کچھ یادگار (“دلیری سے وہاں جانا جہاں پہلے کوئی نہیں گیا”، “لمبی زندگی اور خوشحالی” اور “بیم می اپ، سکوٹی”) جیسے فلمی ڈائلاگوں نے جنم لیا۔
شاکلی کا کہنا ہے کہ 1960 اور 1970 کی دہائی کے آخر میں افرادی قوت میں خواتین کی آمد دیکھنے میں آئی اور “جولی”ا (1968–1971) ” دی میری ٹائلر مور شو” (1970–1977) اور ” پولیس وومن” (1974–1978) جیسے ٹی وی شوز نے زندگی کے حقیقی رجحان کی عکاسی کی۔

شاکلی کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والی ایک مشکل منی سیریز، رُوٹس (1977) “ایک ثقافتی واقعہ تھی۔” اس کی کہانی ایلکس ہیلی کے اُس ناول پر مبنی ہے جس کا تعلق ایک ایسے افریقی نژاد امریکی گھرانے سے ہے جس کا خونی رشتہ غلام بنائے گئے خاندان، کنٹا کنٹے سے جا ملتا ہے۔ اس شو میں کمرشل ٹیلی ویژن کی تاریخ کی سیاہ فام اداکاروں کی سب سے زیادہ تعداد نے کام کیا اور متعدد ایوارڈ جیتے۔ اس شو نے وہ نئی طرح ڈالی جسے حال ہی میں سٹریمنگ سروسز نے دوبارہ زندہ کیا ہے۔
کیک مین نے خاندانی معاملات کے بارے میں ” ڈیلس” (1978–1991) نامی اُس پرائم ٹائم شو کا حوالہ بھی دیا جس نے دنیا بھر کے ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ اس شو کی کہانی یواِنگ سازشی خاندان کے گرد گھومتی ہے جو تیل کی ایک کمپنی اور مویشیوں کے فارم کا مالک ہے۔ ڈیلس میں ساری توجہ سب سے بڑے بیٹے، جے آر یواِنگ پر مرکوز کی گئی ہے جو ایک بے رحم تاجر ہے۔ جے آر یواِنگ کا شمار ٹیلی ویژن کے بڑے بڑے ولنوں میں ہوتا ہے۔

” ڈیلس” زبردست ولنوں کے ارد گرد بنائے گئے حالیہ شوز کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا جن میں دیگر کے علاوہ ” دی سوپرانوس” (1999–2007)، ” بریکنگ بیڈ” (2008–2013) اور ” اوزارک” (2017–تاحال) شامل ہیں۔
تنوع کو اجاگر کرنا اور سٹریمنگ (1990 کی دہائی سے لے کر آج تک)
حالیہ برسوں میں امریکی شوز نے ملک کی متنوع آبادی کی خصوصیات کی بہتر طور پر عکاسی کی ہے۔ لکھاری متنوع کردار اور موضوعات تخلیق کر رہے ہیں جبکہ پروڈیوسر متنوع اداکاروں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ مختلف ٹیلی ویژن کمپنیوں کی طرف سے دکھائے جانے والے ” دا ایلن ڈی جینیرس” نامی ٹاک شو کی میزبانی کرنے سے پہلے، ایلن (1994–1998) نامی ایک گھریلو شو میں اداکاری کرنے والی مزاحیہ اداکارہ، ایلن ڈی جینریس نے 1997 میں کھلے عام ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کیا۔ شاکلی کا کہنا ہے کہ اُس وقت ڈی جنیریس کے مستقبل کے حوالے سے یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا۔ تاہم ڈی جینریس کا شو کامیاب ہوا اور اس کے بعد ” ِول اینڈ گریس” (1998-2006) اور ہم جنس پرست بڑے کرداروں والے، “ماڈرن فیملی” 2009–2020) جیسے شوز کے لیے دروازے کھل گئے۔

شاکلی کا کہنا ہے کہ ان شوز نے رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد کی اور شاید شادی کی مساوات کی راہ ہموار کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوئے۔
1980 کی دہائی میں کیبل ٹی وی کے ظہور اور اس کے بعد 2000 کی دہائی میں انٹرنیٹ سٹریمنگ سروسز نے چھوٹے اور مخصوص ناظرین کے لیے دستیاب شوز کی ایک بڑی تعداد کو جنم دے کر ٹیلی ویژن کو جمہوری بنا ڈالا۔
کیک مین 1970 کی دہائی سے لے کر آج تک کے تارکین وطن اور نسلی خاندانوں کے بارے میں امریکی ٹی وی شوز کا حوالہ اس ابلاغی ذریعے کے روز افزوں جمہوری رنگ اختیار کرنے کے طور پر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
“گڈ ٹائمز” (1974–1979) اور “دی جیفرسنز” (1975–1985) سے لے کر ” بلیک-اِش” (2014–2022) اور “فریش آف دی بوٹ” (2015–2020) تک کے شوز امریکی ٹی وی کی ایسی ثقافتوں کی عکاسی کرتے ہیں جنہیں “اکثر اور بہت آسانی سے نظر انداز یا مسترد کیا گیا۔”
اورلینڈو میں آباد ایک تارکین وطن خاندان کے بارے میں شیف کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی یادداشتوں پر مبنی امریکی ٹیلی ویژن شو “فریش آف دی بوٹ” کے پروڈیوسر اور اس میں کام کرنے والے ادا کار تصویر کھچوانے کےلیے کھڑے ہیں۔ (© Joe Scarnici/WireImage/Getty Images)اس قسم کے شوز کی گونجیں ہسپانوی زبان کے گھریلو شوز، تارکین وطن کے بارے میں ایک مشہور مزاحیہ سیریز اور دنیا بھر کے اُن دیگر شوز میں سنائی دیتی ہیں جو “ایک ایسی ثقافتی روایت کو اپناتے ہیں جس کی امریکہ میں گہری جڑیں ہیں۔” اس روایت کا تعلق باہر سے آنے والے اُن لوگوں کی کہانیاں سنانے سے ہے جو نئی کمیونٹیوں میں آکر آباد ہوتے ہیں اور انہیں بہتر بناتے ہیں۔