ہاتھیوں کی حفاظت کا ایک نیا طریقہ

Elephants in the wild (© Ana Verahrami/Cornell University)
2018 میں جمہوریہ وسطی افریقہ میں واقع ہاتھیوں کے مخصوص علاقے جنگا-سانگھا میں ہاتھی گھوم رہے ہیں۔ (© Ana Verahrami/Elephant Listening Project)

غیرقانونی شکار کرنے والے لوگ ہر سال ہزاروں ہاتھی کو ہلاک کرتے ہیں۔

31 دسمبر 2017 سے چین کی جانب سے ہاتھی دانت پر پابندی عائد کرنے کے باوجود غیرقانونی شکار کے سبب ہاتھیوں کی آبادی بدستور خطرے میں ہے۔

White box attached to the trunk of a tree in the forest (© Robert Koch/Elephant Listening Project)
درخت کے ساتھ لگی ہوئی ریکارڈنگ کی ایک مشین۔ (© Robert Koch/Cornell Lab of Ornithology)

جنگلوں میں رہنے والے ہاتھی خاص طور پر غیرمحفوظ ہیں کیونکہ وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے ان کے ٹھکانوں اور جنگلوں میں گھنے پتوں کے سبب انہیں ڈھونڈنا اور ان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کورنیل  یونیورسٹی اپنے ہاتھیوں کے سننے کے پراجیکٹ کے تحت کیلیفورنیا میں “کنزرویشن میٹرکس”  نامی ایک نئی کمپنی کے ساتھ مل کر ایک نئے طریقے پر کام کر رہی ہے۔ اس طریقے میں ہاتھیوں کی آوازوں کو کمپیوٹر کے ذریعے سنا جاتا ہے۔

ہاتھیوں کی آوازیں سننے کے اس کے تحت کئی دہائیوں سے ہاتھیوں کی آوازیں ریکارڈ کی جا رہی ہیں مگر دوردراز جگہوں پر نصب مائیکروفونوں کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل آڈیو کا تجزیہ کرنا ایک سست رو اور دشوار عمل ہے۔

اب اس شراکت کی بدولت جمہوریہ کانگو میں 1500 مربع کلومیٹر پر پھیلے نوبیل نڈوکی نیشنل پارک میں نصب ریکارڈنگ کے 50 آلات سے اکٹھی کی گئی آوازوں کا زیادہ تیز رفتاری سے تجزیہ کیا جا سکے گا۔ ان میں ہاتھیوں کی چنگھاڑ اور گولی چلنے کی آوازیں بھی شامل ہوں گی۔

ڈیٹا کی تیز تر فراہمی

‘کنزرویشن میٹرکس’ کی ٹیم نے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا ہے جو ہاتھیوں کی آوازوں کو پس منظر میں سنائی دینے والے شور سے الگ کر کے معلومات کا تجزیہ اور انسان سے کہیں زیادہ تیزرفتاری سے معلومات فراہم کر سکتا ہے۔

اس سے پہلے ایک ریکارڈنگ یونٹ سے آوازوں کے حصول، انہیں سننے اور ان کا تجزیہ کرنے میں تین ماہ تک لگ جاتے تھے۔ اب اس نئی کمپنی کے مصنوعی ذہانت پر مبنی سمعی پروگرام کے ذریعے یہی کام صرف 22 دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اور یہ وقت مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔

Two men working with equipment on ground in forest at night (© Elephant Listening Project)
جمہوریہ کانگو کے نوبیل نڈوکی نیشنل پارک میں کارکن ریکارڈنگ مشین نصب کر رہے ہیں۔ (© Elephant Listening Project)

‘کنزرویشن میٹرکس’ کے چیف ایگزیکٹو آفیسرمیتھیو مککون نے ڈیلی میل کو بتایا، ”ہاتھیوں کی آوازیں سننے کا یہ پروگرام افریقہ میں ان جگہوں پر شراکت کاروں کے ساتھ جو کام کر رہا ہے وہ واقعتاً متاثر کن ہے مگر اس کا بندوبسست کرنا واقعتاً ایک مشکل ہے۔”

ہاتھیوں کو سننے کے پراجیکٹ کے ڈائریکٹر پیٹر ریش  کا کہنا ہے کہ اس اشتراک سے ”کام کی رفتار تیز ہو گی اور یوں ہم نیشنل پارک کے منتظمین کو دکھا سکتے ہیں کہ ہم انہیں ایسی معلومات فراہم کر سکتے ہیں جس سے صورت حال میں تبدیلی لائے جا سکے گی۔”

ہاتھیوں کی مدد

ہاتھیوں کے سننے کا پراجیکٹ محض سائنسی ڈیٹا جمع کرنے کا پراجیکٹ نہیں ہے بلکہ سائنس دان ہاتھیوں کے غولوں پر نظر رکھتے ہوئے  اس وقت پارک کے محافظوں  کو چوکس کر سکتے ہیں جب ہاتھیوں کا رخ لکڑیوں کی کٹائی یا کیھتی باڑی والے علاقوں کی جانب ہوتا ہے جہاں ہاتھیوں جیسے لحیم شحیم جانوروں کو نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال ہوتا ہے۔

One large and two small elephants at watering hole (© Ana Verahrami/Elephant Listening Project)
ہاتھیوں سمیت جنگلی حیات کا غیرقانونی کاروبار دنیا میں سرحدوں کے آر پار کیا جانے والا چوتھا بڑا جرم ہے۔ (© Ana Verahrami/Elephant Listening Project)

اگر پارک کے محافظوں کو علم ہو کہ کون سی جگہ پر گولی چلائی گئی ہے تو وہ غیرقانونی شکار کرنے والوں کو آسانی سے ڈھونڈ کر گرفتار کر سکتے ہیں۔

ریش  کہتے ہیں کہ صرف “آوازوں کی مدد سے غیرقانونی شکار کو روکا نہیں جا سکتا” تاہم “شاید یہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم باقاعدگی سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک کٹھن کام ہے مگر یہ اہم ہے اور ایسا ممکن ہے۔ ہمیں بس اسے جاری رکھنا ہے۔”