ہاتھیوں کے بارے میں جاننے سے اُن کے تحفظ کی کوششوں میں بہتری آتی ہے

ہاتھی کا بچہ پانی میں ایک بڑے ہاتھی کے ساتھ کھیل رہا ہے (© DeAgostini/Getty Images)
حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی تعامل ہاتھیوں کو تناؤ سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اوپر تصویر میں بھارت میں ایشیائی ہاتھیوں کو کھیلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ (© DeAgostini/Getty Images)

ہاتھی کے دماغ کا سائز انسانی دماغ سے تین گناہ بڑا ہوتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ اِن نیورون کو کتنا بہتر استعمال کرتے ہیں؟

امریکی محققین خشکی کے دنیا کے سب سے بڑے ممالیہ جانور کے متعلق اس سوال کے جواب اور دیگر رازوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ حالیہ تحقیقوں میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ ہاتھی مسائل کیسے حل کرتے ہیں اور سماجی طور پر ایک دوسرے سے کیسے ملتے جلتے ہیں۔

ستیش وینکاٹیش واشنگٹن کے “سمتھسونین نیشنل زو” نامی قومی چڑیا گھر میں ہاتھیوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے سمتھسونین میگزین کو بتایا کہ “ہم جس چیز کی تلاش کر رہے ہیں وہ ہاتھیوں میں پایا جانے والا انفرادی فرق یعنی کم و بیش اُن کی شخصیت ہے۔ کیا مختلف ہاتھی کسی نئی چیز کے بارے میں مختلف طریقے سے ردعمل ظاہر کرتے ہیں یعنی کوئی ایسی نئی چیز جسے انہوں نے پہلے نہ دیکھا ہو۔؟”

قومی چڑیا گھر میں یہ نئی چیز پلاسٹک کا ایک پائپ ہے جس میں سیب بھرے ہوتے ہیں۔ وینکاٹیش نے سمتھسونین اور ہنٹر کالج کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر حال ہی میں ایک تجربہ کیا جس کے دوران ایک ہاتھی نے پائپ اپنے دانتوں میں پکڑا اور اپنی سونڈھ کے ذریعے سیب تلاش کیے۔ دوسرے ہاتھی نے پائپ کو زمین پر پڑا رہنے دیا اور اس سے سیب نکالے۔

ہاتھیوں کے سوچنے اور رویوں کے طریقوں کو بہتر طور پر سمجھنے سے اُن کے تحفظ کی موثر کوششوں میں مدد مل سکتی ہے۔ آج کل ہاتھی خطرے سے دوچار ہیں اور انہیں غیر قانونی شکار اور اپنے مسکنوں کے خاتمے کے خطرات کا سامنا ہے۔

 کچے راستے پر قطار میں چلتے ہوئے ہاتھی اور پس منظر میں بادلوں میں گھرا پہاڑ (© Ben Curtis/AP Images)
2012 میں کینیا کے امبوسیلی نیشنل پارک میں ہاتھیوں کا ایک غول جا رہا ہے۔ دور پس منظر میں تنزانیہ میں واقع افریقہ کا سب سے بڑا پہاڑ، کِلی مِنجارو دکھائی دے رہا ہے۔ (© Ben Curtis/AP Images)

پنسلوانیا یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اس نکتے پر تحقیق کی کہ ڈیٹا کے باہمی تعامل کے طریقے ہاتھیوں کی نگرانی کرنے اور غیر قانونی شکار کو روکنے میں کس طرح مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی اور کیلی فورنیا کی ‘کنزرویشن میٹرکس’ نامی ٹیکنالوجی کمپنی نے ‘ایلیفنٹ لسننگ پراجیکٹ’ کے نام سے ایک مشترکہ پراجیکٹ شروع کیا تاکہ ممکنہ طور پرغیرقانونی شکار کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہاتھیوں کو سننے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا سکے۔

جولائی میں شائع ہونے والے تحقیقی نتائج کے مطابق محققین نے اُن ہاتھیوں میں تناؤ کی سطح کا تجزیہ کیا جن کی مائیں مرچکی تھیں۔ اس سے پتہ چلا کہ وہ یتیم ہاتھی جو اپنے ہم عمر ہاتھیوں کے ساتھ شامل ہوئے اُن کے تناؤ کی سطح میں کمی آئی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم عمر ہاتھی یتیم ہاتھیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

جینا پارکر ایک محقق ہیں اور نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے تحقیقی کام کرتی ہیں۔ وہ بھی اوپر بیان کردہ تحقیقی نتائج کے مصنفین میں شامل تھیں۔ پارکر کہتی ہیں کہ “ہمارے نتائج ایسے یتیم [ہاتھیوں] کے لیے امید افزا ہیں جن کے خاندان کے ہاتھی زندہ ہوتے ہیں اور بالخصوص جن کا ہم عمر صحت مند ساتھیوں کا گروپ موجود ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سماجی جنگلی حیات کی آبادیوں میں بندھنوں کو محفوظ رکھنا ایک ایسی بنیاد ہو جو انہیں زیادہ مضبوط بناتا ہو۔”