ہانگ کانگ میں کاروائیاں کرنے والے لیڈروں پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد

اخباری کانفرنس میں ہیلمٹ پہنے فوٹوگرافر ایک پولیس افسر کی تصویر کھینچ رہے ہیں (© Vincent Yu/AP Images)
احتجاجی مظاہروں میں اپنی حفاظت کے لیے ہیلمٹ پہنے، فوٹو جرنلسٹ اُس وقت کے پولیس کمشنر، سٹیفن لو کی 2019ء میں ہانگ کانگ میں کی جانے والی ایک اخباری کانفرنس میں تصویر کھینچ رہے ہیں۔ (© Vincent Yu/AP Images)

امریکہ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں پر ہانگ کانگ کی خودمختاری اور آزادیوں کے خلاف کاروائیوں میں ان کے کردار کی وجہ سے پابندیاں عائد کردی ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ نے 7 اگست کو اُن پابندیوں کا اعلان کیا جن کے تحت ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو، کیری لیم اور 10 اعلی عہدیداروں سمیت بہت سے دیگر عہدیداروں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِن سب نے 30 جون کو چین کے اعلی قانون ساز ادارے  کے منظور کردہ ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون کی تیاری یا اس پر عمل درآمد کرنے میں مدد کی۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 7 اگست کو ایک بیان میں کہا، “یہ قانون، جو بظاہر ہانگ کانگ کی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے منظور کیا گیا ہے، در حقیقت سی سی پی کے جبر کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔”

عوامی جمہوریہ چین نے اقوام متحدہ میں رجسٹر شدہ  1984ء کے چین اور برطانیہ کے مشترکہ اعلامیے کے تحت عائد اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرتے ہوئے،  ہانگ کانگ کی “اعلی درجے کی خودمختاری” اور آزادیوں کا احترام کرنے کے اپنے وعدے کو توڑا۔ 20 سے زائد ممالک کے راہنماؤں نے چین کے اِس حالیہ اقدام کو “شہر کی خود مختاری، قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں پر ایک “بھرپور وار” قرار دیا۔

چینی حکام نے جمہوریت کے حامیوں کو گرفتار کر لیا ہے، نامہ نگاروں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں، ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل کے انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں، اور کم از کم ایک درجن انتخابی امیدواروں کو نا اہل قرار دے دیا ہے۔

ٹوئٹر

چینی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ کے بارے میں سلامتی کے اپنے قانون کا اطلاق دنیا بھر کے لوگوں پر کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے استعمال کو نقصان پہنچانے کی ایک انتہائی ناپنسدیدہ کوشش ہے۔ بیجنگ کو حکمرانی کے اپنے آمرانہ ماڈل کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

وزیر خارجہ پومپیو

صدر ٹرمپ کے 14 جولائی کے انتظامی حکم نامے کے ذریعے ہانگ کانگ سے متعلق قومی ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ اس حکم نامے کے تحت منظور کردہ ان نئی امریکی پابندیوں میں اُن کو نشانہ بنایا گیا ہے جو ہانگ کانگ میں آزادی اور جمہوری عملوں کو دبانے اور قانونی کی حکمرانی کو نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہیں۔

لیم نے ہانگ کانگ کے سلامتی کے قانون کی تیاری اور نفاذ میں مدد کی۔ 2019ء میں انہوں نے ہانگ کانگ سے لوگوں کو چین کے مرکزی علاقے میں زبردستی بھجوانے کی اجازت پر زور دیا جس کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نئے قانون سے سی سی پی کی سکیورٹی فورسز کو ہانگ کانگ میں سزا یا احتساب کے بغیر کھلم کھلا کاروائیاں کرنے اور انفرادی آزادیوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت مل گئی ہے۔

محکمہ خزانہ کے مطابق ان پابندیوں میں ہانگ کانگ کے پولیس کمشنر، کرِس ٹینگ اور اُن کے پیشرو، سٹیفن لو کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جنہوں نے اُن کاروائیوں کی قیادت کی جن کے دوران 4,000 احتجاجی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور 1,600 زخمی ہوئے۔

جن دیگر افراد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اُن میں وہ سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جوقومی سلامتی کے قانون کے تحت لوگوں کو ڈرانے دھمکانے، گرفتار کرنے، نظربند کرنے یا قید کرنے میں ملوث ہیں یا بصورت دیگر قانون نافذ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

نئے اقدامات کے تحت پابندیوں کا نشانہ بنائے گئے افراد کے اثاثہ جات منجمد کر دیئے گئے ہیں اور اُن کی امریکی مالیاتی نظام تک رسائی یا اُن کے امریکی شہریوں کے ساتھ لین دین کو روک دیا گیا ہے۔

امریکہ کے وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے 7 اگست کو کہا، “امریکہ ہانگ کانگ کے لوگوں کے ساتھ  کھڑا ہے اور ہم اُن کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے وسائل اوراختیارات  استعمال کریں گے۔”