
یہ عین ممکن ہے کہ ڈینگی بخار کی پیشین گوئی صرف ایک ٹیلی فون کال سے کی جا سکتی ہو۔ پاکستان میں صحت عامہ کے حکام مچھروں سے پھیلنے والی اس بیماری کی وباء کی پیشین گوئی کے لیے ٹیلی فون کی ایک ہیلپ لائن کو استعمال میں لا رہے ہیں۔
امریکہ اور پاکستان میں محققین نے ڈینگی کی وبا کے پھوٹ پڑنے اور اس وبا کے پھیلاؤ کی پیشین گوئی کرنے کے لیے، ایک ٹیلی فون ہاٹ لائن تیار کی ہے۔ ڈینگی، مچھروں سے پھیلنے والا ایک وائرس ہے۔ اس وبا کے پھوٹ پڑنے سے دو سے تین ہفتے قبل، ریسرچ ٹیم کا کمپیوٹر، ٹیلی فون پر ملنے والی اطلاعات کو پیشین گوئی کے ایک ماڈل میں ڈال کر ایک مخصوص طریقے سے اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔
اس بات کا علم ہوجانے کے بعد کہ بیماری سے ممکنہ طور پر کتنے لوگ متاثر ہوسکتے ہیں، صحت عامہ کے حکام کسی کمیونٹی پر پڑنے والے ڈینگی کے اثرات کو محدود رکھنے کے اقدامات کرسکتے ہیں، مختلف مقامات پر مچھروں کے انڈے دینے کے امکانات کو ختم کرسکتے ہیں اور متاثرہ مقامات پر کیڑے مار دوائیں چھڑک سکتے ہیں۔
نیو یارک یونیورسٹی کی پروفیسر لکشمی سبرامنیم کہتی ہیں کہ یہ کمپیوٹر ماڈل حقیقت کے اتنے قریب ہے کہ اس سے متاثر ہونے والے گلی محّلوں کے بارے میں انتہائی درست اور تفصیلی معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

کسی علاقے سے متعلق یقین کے ساتھ درست اطلاعات کی فراہمی، اُس قسم کی وباؤں کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے، جیسی وبا 2011 میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں پھیلی تھی، جس کا پتہ اس وقت جاکر چلا جب ڈینگی سے 21,000 سے زیادہ لوگ متاثر ہوچکے تھے اور 350 جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ وبا کے اس اچانک حملے سے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال ڈینگی سے 4,00,000 لوگ متاثر ہوتے ہیں ، اور اندازاً 2.5 ارب لوگوں کے لیے ڈینگی سے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس بیماری میں اچانک بہت تیز بخار چڑھتا ہے، اور سر اور جوڑوں میں انتہائی شدید درد ہوتا ہے۔ یہ بیماری ڈینگی جراثیم سے متاثرہ طفیلی مچھروں سے پھیلتی ہے، جس کا نہ توکوئی علاج ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین ہے۔
ہاٹ لائن کے فوائد
اب تک 3,00,000 لوگ ہاٹ لائن پر ڈینگی کی علامتوں کے بارے میں سوالات پوچھ چکے ہیں۔ محققین کے مطابق لاہورمیں اس بیماری کے واقعات میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کم خرچ نظام میں ڈیٹا جمع کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے ملیریا، انفلوئنزا، حتیٰ کہ پولیو کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ ایک ایسی بیماری ہے جسے پاکستان اور افغانستان میں چند کیسوں کے سوا، باقی پوری دنیا میں مکمل طور پر ختم کیا جا چکا ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے سربراہ مصنف نبیل عبدالرحمٰن کا کہنا ہے، ’’ لہذا یہ [ماڈل] کسی حد تک بہت بنیادی نوعیت کا حامل ہے اور اسے ملک کے کسی بھی دوسرے حصے میں اور کسی بھی دوسرے ملک میں روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔‘‘