ذیل میں محفوظ، باضابطہ اور باقاعدہ ہجرت کے لیے عالمگیر معاہدے پر امریکہ کے قومی بیان کی وضاحت کی گئی ہے۔
امریکہ اور آسٹریلیا، ڈومنیکن ری پبلک اور ہنگری جیسے متنوع ممالک دنیا بھر کے بہت سے ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں منظور کردہ حالیہ قرارداد کے مخالف ہیں جسے ”محفوظ، باضابطہ اور باقاعدہ ہجرت کے لیے عالمگیر معاہدے” کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ وائٹ ہاؤس میں کون بیٹھا ہے اور کانگریس میں کون سی جماعت اکثریت میں ہے، امریکہ اور اس کے منتخب حکام نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ ہر ملک کو اپنی سرحدوں پر مکمل اختیار، اپنے شہریوں کے معاشی و سماجی مفادات کے تحفظ اور انہیں آگے بڑھانے اور یہ تعین کرنے کا خود مختارانہ قانونی حق حاصل ہے کہ ملک میں کون داخل ہو سکتا ہے، وہ کتنی دیر قیام کر سکتا ہے اور ملک میں کس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے۔
قانونی اور باقاعدہ امیگریشن سے ملکوں، شہریوں اور خود تارکین وطن کو فائدہ پہنچتا ہے۔ عالمی سرحدوں کے آر پار لوگوں کی غیرقانونی نقل و حرکت سے شہریوں کے لیے سلامتی کے خدشات جنم لیتے ہیں، اس ملک کے شہری استحصال اور ناجائز سلوک کا ہدف بنتے ہیں اور حکومت کی اہلیت اور محفوظ سرحدوں پر شہریوں کا اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ مسائل آگے جا کر حکومتی رہنماؤں کی ساکھ اور امیگریشن پالیسی کی نئی اقسام پر غوروفکر اور انہیں اختیار کرنے کی اہلیت کو مزید کمزور بنا دیتے ہیں۔
اس معاہدے کے حامی لوگ اور ممالک اس بات کے سوا ہر ایک چیز کو کھلے عام مانتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کے ذریعے مہاجرت کے تصور سے متعلق عالمگیر انتظامی عمل شروع کرنا چاہتے ہیں۔ طویل مدتی تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے امریکہ اور دیگر خودمختار ممالک کی، ان کے لوگوں کے نزدیک مناسب سمجھے جانے والے ایسے اقدامات اٹھانے کی اہلیت پر اثر پڑتا ہے جن کا مقصد شہریوں کو غیرجوابدہ حکام اور اداروں کے عالمی جائزے سے پاک، امیگریشن قوانین اور پالیسیوں کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس معاہدے پر اپنے قومی بیان میں امریکی حکومت کہتی ہے کہ ”اگرچہ امریکہ اپنی ملکی تعمیر و ترقی میں بہت سے تارکین وطن کے کردار کی قدر کرتا ہے مگر ہم کسی ایسے ‘معاہدے’ کی حمایت نہیں کر سکتے جو ایسی عالمگیر رہنمائی، معیارات، توقعات یا ذمہ داریاں عائد کرے یا کر سکتا ہو جن سے ہماری اپنے ملک اور شہریوں کے بہترین مفاد میں فیصلے کرنے کی اہلیت محدود ہونے کا احتمال ہو۔”
خودمختاری کی اہمیت
امریکہ اور دنیا بھر میں دیگر جمہوری اور آزاد ممالک کے لیے خودمختاری کا تصور یا یہ نظریہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر ملک کے شہریوں کو اپنی ملکی سیاست اور قانونی امور پر کنٹرول کا تن تنہا اور حتمی اختیار حاصل ہے۔ امیگریشن اسی طرح کا ایک مسئلہ ہے جس کے بارے میں صرف خود مختار حکومتیں ہی کوئی فیصلہ کر سکتی ہیں۔ عالمی برادری اس معاہدے کے ذریعے امیگریشن اور ایسے متعلقہ امور پر جو موقف اختیار کر رہی ہے وہ امریکہ اور دیگر ممالک کے مفادات سے متصادم ہے۔ معاہدے کی شرائط تمام ممالک کی ان خودمختارانہ اہلیتوں سے بھی متصادم ہیں جن کی رو سے وہ بذات خود یہ تعین کرتے ہیں کہ ان کے لیے کون سے امیگریشن قوانین اور پالیسیاں بہتر ہیں۔

امیگریشن کا ایک قانونی، باضابطہ اور فیاضانہ نظام
جب قانونی اور باضابطہ امیگریشن کی بات ہوتی ہے تو امریکہ کا دنیا میں قائدانہ کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔
ہر سال امریکہ بیرون ملک پیدا ہونے والے ہزاروں افراد کو اپنا شہری بناتا ہے اور مزید ہزاروں لوگوں کو مستقل قانونی رہائشیوں، پناہ گزینوں اور مہاجرین کے طور پر گلے لگاتا ہے۔ امیگریشن کی بات ہو تو مختلف زمروں کے تحت امریکہ آنے والوں کی مجموعی تعداد اور تمام نسلوں، قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کے لیے کشادگی امریکہ کو دنیا میں فیاض ترین ملک بنا دیتی ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں آزاد اور غیرآزاد لوگوں کے لیے مینارہ نور ہے اور اس سب کچھ کی وجہ خودمختارانہ اور قانونی حکمرانی کے ساتھ اس کا غیرمتزلزل عہد ہے۔
محکمہ داخلی سلامتی کے حالیہ اعدادوشمار غور طلب ہیں:
- 2018 میں اب تک امریکہ 750,000 افراد کو امریکی شہریت دے چکا ہے۔ 2013 کے بعد یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
- 2017 (معلومات کے اعتبار سے تازہ ترین سال) میں امریکہ نے مصائب سے تحفظ کے خواہاں 80 ہزار سے زیادہ افراد کو مہاجر یا پناہ گزین کا درجہ دیا۔ 1975 سے لے کر اب تک امریکہ میں 30 لاکھ پناہ گزینوں کو دوبارہ آباد کیا جا چکا ہے۔
- اگرچہ قانون نافذ کرنے والے حکام نے امریکی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا ہے تاہم گزشتہ برس انہوں نے 4311 ایسے افراد کی جانیں بھی بچائیں جنہوں نے غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر سمگلروں نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا یا وہ دشوار گزار زمینی علاقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔
تحفظ کی بنیاد پر مہاجرت و معاونت کے معاملے میں امریکہ کی حیثیت دنیا کی فیاض ترین قوم کے طور پر برقرار ہے اور اس کی یہ حیثیت آئندہ بھی برقرار رہے گی۔