ہر سال موسمِ بہار میں، امریکی ٹیکس کے دن کی تیاری کرتے ہیں۔

اندرونِ ملک ٹیکسوں کے محکمے یا آئی آر ایس کی عمارت۔ آئی آر ایس قومی انکم ٹیکس کا انتظام چلاتی ہے۔ (© AP Images)

ٹیکس ادا کرنا شاید ہی کسی کو اچھا لگتا ہو۔ لیکن 1913ء میں صدر وُڈ رو وِلسن نے اُس قانون پر دستخط کیے جس کے تحت وہ ٹیکس قائم ہوا جو کچھ امریکیوں کو پسند تھا: یعنی قومی انکم ٹیکس

تاریخی طور پر، امریکی حکومت شراب، تمباکو اور چینی جیسی اشیاء پر ٹیکس لگا کر پیسہ اکٹھا کیا کرتی تھی۔ حکومت اکثر درآمد شدہ اشیاء پر بھاری درآمدی ٹیکس عائد کرتی تھی۔ لیکن ان ٹیکسوں کا صارفین پر بہت زیادہ اثر پڑتا تھا۔ صرف یہی نہیں، بہت سے امریکیوں نے دیکھا کہ صنعتوں کے قیام سے لوگوں کو بہت زیادہ دولت جمع کرنے میں مدد مِل رہی تھی، اور انھوں نے یہ دلیل دی کہ نئے مالدار ہونے والے شہریوں کو ٹیکس کا نسبتاً زیادہ بوجھ برداشت کرنا چاہیے۔

“ٹیکس وہ قیمت ہے جو ہم ایک مہذب معاشرے کی خاطر ادا کرتے ہیں”

1912ء میں، ولسن صدارت کے لیے کھڑے ہوئے اور صدارتی انتخاب جیت گئے۔ ان کے انتخابی وعدوں میں ایک وعدہ وفاقی انکم ٹیکس کا بھی تھا۔ اس کے اگلے سال انھوں نے انکم ٹیکس کے قانون پر دستخط کیے اور نیا قانون نافذ ہو گیا۔ ٹیکسوں کے معاملے میں امریکیوں میں ابھی تک بحث جاری ہے، لیکن انکم ٹیکس بدستور وفاقی حکومت کی آمدنی یا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔

یہ ٹیکس ایک سال کی آمدنی پر لیا جاتا ہے۔ گزرے ہوئے سال کے دوران حاصل ہونے والی آمدنی پر، نئے سال میں 15 اپریل تک لازمی طور پر انکم ٹیکس کی مکمل ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اس ٹیکس کی شرح “تدریجی” ہوتی ہے یعنی جوں جوں آمدنی بڑھتی ہے ویسے ویسے ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

اگرچہ ٹیکس کبھی بھی مقبول نہیں رہے، پھر بھی امریکی اپنا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اولیور وینڈیل ہومز جونیئر کی طرح ان کا استدلال یہی ہوتا ہے کہ “ٹیکس وہ قیمت ہے جو ہم ایک مہذب معاشرے کی خاطر ادا کرتے ہیں۔”

یہ مضمون  ابتداً  3 اکتوبر، 2014 کو شائع ہوا تھا۔