ہمیں مائع قدرتی گیس کے پر کیوں توجہ دینا چاہیے؟

جب آپ روشنی کے لیے بلب کا بٹن دباتے ہیں یا اپنے چولہے میں آگ جلاتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں ہوتا ہے کہ یہ توانائی کہاں سے آ رہی ہے؟ غالباً آپ ایسا اُس وقت تک نہیں ہوتا جب تک بتی چلی نہ جائے۔

دنیا کے ممالک سب کام ٹھپ کر دینے والی قدرتی گیس کی فراہمی کی ممکنہ بندش کی روک تھام کے لیے،  روزافزوں انداز میں قدرتی گیس کی تیاری اور نقل و حمل کو ترقی دینے  پر کام کر رہے ہیں۔  صدر ٹرمپ نے 29 جون کو کہا، “جدت طرازی اور ٹکنالوجی کی طاقت سے، ہم توانائی کے ایک حقیقی انقلاب کے  دہانے پر کھڑے ہیں۔”

جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے اب گیس کو دنیا کے کسی بھی کونے سے مائع شکل میں لایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں گیس پیدا کرنے والے، قدرتی گیس کو صرف پائپ لائنوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے تھے۔ مگر آج کل، عام طور پر ایل این جی کہلانے والی مائع قدرتی گیس کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اور مخصوص قسم کے بحری ٹینکروں میں بھر کر دنیا میں کہیں بھی ایسی جگہ لے جایا جا سکتا ہے جہاں ایل این جی کی سہولیات میسر ہوں۔ یہ ممالک کی توانائی کی سکیورٹی کے سلسلے میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔

ایل این جی کیا ہے؟

زمین کی سطح کے نیچے زیادہ تر میتھین نامی ایندھن پر مشتمل قدرتی گیس، وسیع علاقے میں پھیلی ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ اِس کو منفی  162 ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا کریں تو قدرتی گیس مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ قدرتی گیس کو مائع شکل میں تبدیل کرنے سے اِس کا حجم 600 گنا کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دنیا میں کسی بھی جگہ ذخیرہ کرنا اور بحری جہاز سے پہنچانا آسان ہوتا ہے۔

Illustration of three-step process to move gas from underground to buildings using it (State Dept./D. Thompson)
(1) زمین سے نکالنے کے بعد قدرتی گیس کو صاف کرکے مائع شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ (2) مائع قدرتی گیس کو بڑے بڑے بحری ٹینکروں کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جایا جا سکتا ہے۔ قدرتی گیس کی ٹینکیوں والے اِس ٹینکر کے ڈیزائن کو ‘موس ٹائپ’ ٹینکر ڈیزائن کہتے ہیں۔ (3) اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد، ایل این جی کو دوبارہ گیس کی شکل میں تبدیل کر کے بجلی گھروں، کارباروں اور لوگوں کے گھروں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ (State Dept./D. Thompson)

مائع گیس کو خاص قسم کے دہرے پیندوں والے بحری جہازوں کے ذریعے دنیا بھر میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ بحری جہاز بہت بڑے ہوتے ہیں اور اِن کی لمبائی 345 میڑ تک ہوتی ہے۔

منزل مقصود پر پہنچ کر، ایل این جی کو یا تو سمندر سے باہر یا سمندر پر تیرتے ہوئے کسی پلیٹ فارم پر گیس کی شکل میں تبدیل کرنے کے بعد پہلے سے موجود پائپوں کے نیٹ ورک کے ذریعے [صارفین تک پہنچایا] جاتا ہے۔

کیا ٹینکروں پر ایل این جی محفوظ ہوتی ہے؟

یقیناً ! امریکہ کے مالی تعاون سے چلنے والے تحقیقی اور ترقیاتی مرکز، سینڈیا نیشنل لیبارٹریز کی ایک رپورٹ کے مطابق، بحری جہازوں سے ایل این جی کی نقل وحمل کی صنعت کا ریکارڈ مثالی ہے۔ 40 سال سے ایل این جی کو محفوظ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ اِس عرصے میں صرف آٹھ حادثے ہوئے۔ اِن میں نہ تو کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی گیس کی کوئی قابلِ ذکر مقدار پانی میں شامل ہوئی۔

اچھے حفاظتی ریکارڈ کی وجوہات  یہ ہیں کہ ایل این جی صرف اُس وقت آگ پکڑتی ہے جب یہ بخارات کی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دیگر ایندھنوں کے مقابلے میں اِس کو کم آگ لگتی ہے۔ اس کے علاوہ ایندھن لے جانے والے عام ٹینکروں کے مقابلے میں ایل این جی کے ٹینکروں کو زیادہ مضبوط بنایا جاتا ہے۔

ایل این جی کے ٹینکروں کا بیڑہ نیا ہے اور اِس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس بیڑے میں شامل تقریباً 55 فیصد جہاز 11 سال یا اِس سے کم پرانے ہیں۔

خصوصی بحری جہازوں میں مائع  قدرتی گیس کو ذخیرہ کرنے اور اِن کے ذریعے اِس کی نقل و حمل کی استعداد سے قدرتی گیس کے لئے ایک عالمی منڈی وجود میں آ سکتی ہے۔ برآمد کنندگان ایندھن کے مستحکم ذرائع فراہم کرنے کے لئے آگے آ سکتے ہیں۔ وہ  پہلے سے ہی ایک ایسی موثر اور شفاف مارکیٹ تشکیل دے رہے ہیں جہاں خریدار بہتر قیمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

جاپان اور کوریا دنیا کی دو سب سے بڑی منڈیاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک بھی اپنی توانائی کی رسدوں کو متنوع اور توانائی کی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کی خاطر ایل این جی کی درآمد  میں روزافزوں اضافہ کر رہے ہیں۔

29 جون کو توانائی کے امریکی محکمے نے ریاست لوزیانا کے لیک چارلس ایل این جی ٹرمینل کی قدرتی گیس برآمد کرنے کی دو طویل المدتی درخواستوں کی منظوری دی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا، “یہ ایک عظیم اعلان ہے۔”

فروری 2016 کے بعد خلیجی ساحل سے امریکی ایل این جی سے لدے 130 سے زیادہ بحری ٹینکر 20 ممالک کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ ‘امریکی توانائی کو عام کرنے کے” اپنے منصوبے کے مطابق، حکومت توانائی کی برآمدات کو بڑہانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔