
امريکی وزير خارجہ مائيکل آر پومپيو کے مطابق امريکی سفارت کاری بدستور دوسرے ممالک کو متاثر کر رہی ہے، خاص طور پر جب امريکی حکومت انسانی حقوق کی پامالی کے ضمن ميں ممالک کا احتساب کرتی ہے۔
اکتوبر 22 کو ہيريٹج فاؤنڈيشن سے خطاب کے دوران پومپيو نے کہا کہ “ميرا پختہ يقين ہے کہ چونکہ ہم سفارت کاری کا يہ کٹھن کام کر رہے ہيں، ہمارے بہت سے دوستوں اور اتحاديوں نے دنيا کو نئ نظروں سے ديکھنا شروع کر ديا ہے”۔
چھوٹی اور بڑی اقوام کے ساتھ بامعنی کثير الجہتی تعلقات کے قيام کے نتيجے ميں دنيا بھر ميں کامياب کہانياں سامنے آئ ہيں، جيسے کہ درج ذيل مثاليں
- ليما گروپ کا قيام، 14 ممالک کا وينيزويلا ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے عزم کا اعلان
- اے ايس ای اے اين کا ہند بحرالکاہل کے علاقے ميں قانون کی بالادستی کے قيام کے ليے تعاون کا اعلان
- مينسٹريل ٹو ايڈوانس ريليجيسز فريڈم کا قيام، جس ميں امريکی وزارت خارجہ ميں انسانی حقوق پر سب سے بڑی کانفرنس ميں سو سے زائد ممالک نے شرکت کی۔

امريکی وزير خارجہ نے زور ديا کہ امريکہ دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرنے کے ليے پرعزم ہے تا کہ “دنيا بھر ميں سيکورٹی کے حصول کے ليے ان عالمی اہداف کے حصول کے ضمن ميں ذمہ داری کا بوجھ بانٹ سکے”، خاص طور پر ايران کے معاملے ميں۔ پومپيو نے کہا کہ “سينکڑوں کی تعداد ميں نجی کمپنياں ہماری لگائ گئ پابنديوں ميں ہمارا ساتھ دے رہی ہيں۔ دنيا بھی يہ سيکھ رہی ہے کہ ايران پر التجا کا نہيں بلکہ قوت کا اثر ہوتا ہے۔”
بيرونی ممالک ميں اس گفتگو کا نتيجہ؟ ہر جگہ ہر کسی کے ليے مزيد آزادی۔
پومپيو نے کہا کہ “امريکہ کے اندر يہ جو ہميں آزادی حاصل ہے يہ اہم اور طاقتور ہے اور دنيا بھر ميں يہ اقوام کے ليے راہ متعين کرتی ہے”۔