یہ مضمون محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے تحریر کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی روزمرہ بریفنگ کا اختتام اپنے ساتھ ہمیشہ کامیابی اوراطمینان کے ملے جلے جذبات لے کر اتا ہے۔
محکمہ کے ترجمان کے طور پر میں روزانہ پریس بریفنگ کے دوران نامہ نگاروں کا سامنا کرتا ہوں تاکہ عوام کے امریکی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ گو کہ یہ کام کبھی کبھار مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اگر عوام یہ نہیں جان پائیں گے کہ ہم کیا کر رہے ہیں یا کیوں کر رہے ہیں تو ہماری پالیسیوں میں کامیابی کے لیے درکار اعتبار اور جواز کی کمی پیدا ہو جائے گی۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ سے سوالات پوچھنے والے صحافی خود امریکہ کی جمہوریت کے لیے اہم ہیں اور وہ ذمہ دار، اور جوابدہ حکمرانی کی اہمیت کے بارے میں پوری دنیا کے لیے ایک پیغام لیے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ، میں امید کرتا ہوں کہ نامہ نگاروں کے سوالات اور میرے جوابات کے تبادلے اُس محنت کی ایک مثال ثابت ہوں گے جس کی باخبر شہریوں اور ایک شفاف اور جوابدہ حکومت کو ضرورت ہوتی ہے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ دنیا کے بہت سے ممالک کی حکومتیں آزاد پریس کو روکتی ہیں مگر اس کے باوجود میں یہ بات کرتا ہوں۔ وہ صحافیوں کو اپنا کام کرنے پر ہراساں کرتی، دھمکیاں دیتی اور اُنہیں قید کرتی ہیں اور انہیں خاموش کرانے کے لیے پابندی والے قوانین منظور کرتی یا پالیسیاں بناتی ہیں۔ “رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نامی تنظیم کے مطابق، روس، برما، عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) اور دیگر ممالک 2017 سے لے کر اب تک کم از کم 22 اخبارات کو اپنی اشاعت بند کرنے پر مجبور کر چکے ہیں۔
If the values of transparency and accountability are going to be more than just buzzwords in our global engagement, we have to practice what we preach here at home. We need an engaged, active press corps to hold our feet to the fire. Not only do we need it, we welcome it. pic.twitter.com/pjNhknojro
— Ned Price (@StateDeptSpox) February 4, 2021
یہ حقیقت اس سال کے پریس کی آزادی کے عالمی دن کو مزید اہم بنا دیتی ہے۔ اس عالمی دن کو منانے کا آغاز 1993 میں ہوا اور یہ ہر برس 3 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں آزاد پریس کو برقرار رکھنے اور جابرانہ حکومتوں کے خلاف صحافیوں کی حمایت کرنے کی اہمیت کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ ان صحافیوں کو یاد کرنے کا وقت بھی ہے جنہوں نے جمہوریت کے بارے میں آگاہی دینے اور اِس دنیا کو بہتر طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرنے والی کہانیوں کی تلاش کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔
اُن کے ساتھ اپنے روزمرہ کے میل جول کی وجہ سے میں محکمہ خارجہ کو کور کرنے والے نامہ نگاروں کو جاننے لگا ہوں اور مجھے اُن خطرات کا احساس ہوا ہے جو یہ مول لیتے ہیں۔ جب ہمیں معلوم ہوا کہ نامہ نگار بین ہال زخمی ہو گئے ہیں اور یوکرین میں روس کی جنگ کی دلیری سے خبریں دیتے ہوئے پیئر زکرزیوسکی، اولیکسانڈرا کووشینووا اور ویرا ہائیرچ مارے گئے ہیں تو یہ خبریں ہمارے لیے دل شکنی کا باعث بنیں۔ دنیا میں بہت سے مقامات پر صحافیوں کو سچ بتانے پر جسمانی تشدد حتٰی کہ موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس برس پریس کی آزادی کے عالمی دن کی توجہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں صحافیوں کی حفاظت اور آزادی اظہار پر مرتب ہونے والے اثرات پر مرکوز ہے۔ اس بنیادی خیال کا یہ انتہائی مناسب وقت ہے کیونکہ آمرانہ حکومتیں اپنی ملکی سرحدوں سے باہر نکل کر زیادہ سے زیادہ صحافیوں کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ صحافیوں کے روابط اور اُن کی موجودگی کے مقامات پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل وسائل کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔
پریس کے اراکین سمیت اظہار رائے کی آزادی ایک انسانی حق ہے۔ مجھے محکمہ خارجہ کی جانب سے دنیا بھر میں آزاد میڈیا کی حمایت میں بات کرنے پر فخر ہے۔ گزشتہ برس محکمہ خارجہ نے دنیا کی توجہ پی آر سی، روس، بیلاروس، نکاراگوا اور دیگر ممالک کے صحافیوں کو گرفتار کرنے اور اخباروں کو بند کرنے پر مجبور کیے جانے کی جانب دلائی۔ صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔ صرف وہ لوگ پریس کی زباں بندی کرتے ہیں جنہیں کچھ چھپانا ہوتا ہے۔
محکمہ خارجہ اندرون ملک اور بیرون ملک پریس کی آزادی کو فروغ دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ ہم دوسری حکومتوں پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ صحافیوں کو ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے اور تشدد کا نشانہ بنانے والوں کا احتساب کریں۔