
امریکہ اور ہند۔الکاہل کی ایک درجن دیگر معیشتوں نے خطے میں مںصفانہ اور خوشحال معاشی ترقی کے لیے ایک نیا فریم ورک شروع کیا ہے۔
صدر بائیڈن نے 23 مئی کو ٹوکیو میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہند۔الکاہل معاشی فریم ورک برائے خوشحالی (آئی پی ای ایف) کے ذریعے شراکت دار ممالک 21ویں صدی کی معیشت کے لیے نئے قوانین وضع کریں گے تاکہ معاشی فروغ کے عمل کو پائیدار بنایا جا سکے اور سبھی کو ترقی کے مساوی مواقع میسر آئیں۔
”امریکہ ہند۔الکاہل پر بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ ہم ایک طویل اور مشکل سفر کے لیے پُرعزم ہیں اور اپنے دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر خطے کے مثبت مستقبل کے لیے اپنے تصور کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں۔” یہ بات صدر بائیڈن نے خطے کے رہنماؤں کی موجودگی میں اس فریم ورک کے آغاز سے متعلق اجلاس میں کہی جن میں جاپان کے وزیراعظم کیشیڈا فومیو اور انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی بھی شامل تھے۔
بائیڈن نے مزید کہا کہ ”اس سلسلے میں ہم روزانہ کی بنیاد پر آپ سب کے ساتھ پیش رفت کے لیے کام جاری رکھیں گے تاکہ ہم اپنے تمام لوگوں کو حقیقی اور ٹھوس فوائد پہنچا سکیں۔”
اس فریم ورک کے ابتدائی شراکت داروں میں آسٹریلیا، برونائی، انڈیا، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائشیا، نیوزی لینڈ، دی فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔ مستقبل میں مزید ممالک بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
So much of the future of the world is going to be written in the Indo-Pacific over the next several decades. This is the moment to invest in one another, deepen our business ties, and bring our people even closer together. pic.twitter.com/YSWhgLkT4P
— President Biden (@POTUS) May 20, 2022
اس فریم ورک کا آغاز صدر بائیڈن کے جنوبی کوریا کے دورے میں اور کیشیڈا اور جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ٹوکیو میں ہوا۔ دونوں اجلاسوں میں عالمگیر مسائل بشمول یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت اور شمالی کوریا کی جانب سے لاحق سلامتی کے مسائل پر بات چیت ہوئی۔
آئی پی ای ایف کے آغاز سے متعلق اس اجلاس میں بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ خطہء ہند۔الکاہل 21ویں صدی کی معیشت کی تشکیل کرے گا کیونکہ دنیا کی نصف آبادی اسی خطے میں رہتی ہے۔ اس فریم ورک میں شمولیت اختیار کرنے والی پہلی 12 معیشتیں دنیا کی 40 فیصد مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کی نمائندگی کرتی ہیں۔
آئی پی ای ایف کے تحت شراکت دار معیشتیں:
- ڈیجیٹل اشیا کی تجارت اور خدمات کے حوالے سے قوانین بنائیں گی تاکہ ٹیکنالوجی کے ملکیتی حقوق کو تحفظ مل سکے۔
- اہم اشیا کی تجارتی پیمانے پر ترسیل کے نظام میں آنے والے رکاوٹیں دور کریں گی اور مسائل سامنے آنے سے پہلے ہی ان کی نشاندہی کے لیے انتباہی نظام تیار کریں گی۔
- ماحول دوست توانائی اور ازالہء کاربن کے لیے نئے وعدے کریں گی۔
- ایسے خلا بند کریں گی جن کے ذریعے بدعنوانی عالمی جی ڈی پی کا اندازاً 2 تا 5 فیصد نچوڑ لیتی ہے اور عدم مساوات کی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ شراکت دار ممالک منصفانہ ٹیکس وصولی کو بھی فروغ دیں گے تاکہ حکومتوں کو تعلیم، طبی خدمات اور دیگر طرح کی ترقیاتی سرمایہ کاری میں مدد مل سکے۔
امریکہ کی تجارتی نمائندہ کیتھرائن تائی نے 23 مئی کو صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے لے کر قواعد اور محنت سے متعلق طریقہ ہائے کار اور ماحولیاتی و کاروباری احتساب تک بہت سے امور پر اس نئے فریم ورک میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس فریم ورک کے تحت بنائی گئی پالیسیوں کا مقصد عالمگیر ترجیحات کو فروغ دیتے ہوئے لوگوں کے لیے خوشحالی لانا ہے۔
تائی نے کہا کہ ”بنیادی طور پر یہ فریم ورک بڑی اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو 21ویں صد کے مسائل سے نمٹنے اور آنے والے سالوں میں سبھی کے لیے منصفانہ اور مضبوط تجارت کو فروغ دینے کے لیے باہم جوڑے گا۔”