ہنڈراس کے نوجوان رہنماؤں کی ترک وطن کی حوصلہ شکنی کی کوشش

ہنڈراس سے تعلق رکھنے والے ایبسلون کیلکس کو اپنے آبائی شہر سان پیڈرو سولا میں سڑک پر پڑا ایک بٹوہ ملا۔ اس میں سے  ایک خط نکلا جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ جب خاندان مختلف ممالک میں بٹے ہوتے ہیں تو کتنا کچھ  داؤ پر لگ جاتا ہے۔

یہ دردناک خط امریکہ ہجرت کرنے والے ایک باپ کی نے اپنی بیٹی کے نام لکھا تھا جس میں اس نے یہ امیدیں باندھیں تھیں کہ کسی دن وہ ایک دوسرے سے آن ملیں گے۔

کیلکس کا کہنا ہے، ”اس دن میں سمجھ گیا کہ ہجرت کے معانی محض ایک لفظ سے کہیں زیادہ بڑھکر ہیں۔ ہمارے لیے ہجرت قریباً ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے کا نام ہے۔ مگر اسے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔”

کیلکس چاہتے ہیں کہ ان کی طرح ہنڈراس کے نوجوان شمال میں میکسیکو، امریکہ یا کینیڈا کی جانب خطرناک سفر کرنے کا انتخاب کرنے کے بجائے اپنے وطن میں ہی رہیں۔ اب وہ امریکی معاونت سے چلائے جانے والے ”می وی انٹرنیشنل”  نامی ایک غیرمنفعتی ادارے کی طرف سے دی گئی تربیت کے ذریعے یہ سیکھ چکے ہیں کہ ان نوجوانوں کو قائل کرنے کے لیے کہانیوں کو کیسے استعمال کیا جانا چاہیے۔

Man in shadows speaking in front of men standing behind him (U.S. Embassy Tegucigalpa)
‘می وی انٹرنیشنل’ کے سربراہ محسن محی الدین ہنڈراس کے نوجوان رہنماؤں کے لیے داستان گوئی پر مبنی ایک ورکشاپ کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں ترک وطن کے نقصان دہ اثرات پر بات کی جاتی ہے۔ (U.S. Embassy Tegucigalpa)

کیلکس ان 25 نوجوان رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے دارالحکومت تگوسیگالپا میں امریکی سفارت خانے کے  ‘سینٹرو کلچرل سیمپیڈرینو’ میں واقع “امیریکن سپیسیز سنٹر” میں تین روزہ ورکشاپ میں شرکت کی۔ اس ورکشاپ میں انہوں نے یورو اور کورٹس، ہنڈراس کے دفاتر یا اُن ریاستوں پر مرتب ہونے والے ترک وطن کے نقصان دہ اثرات پر بات کی جن میں یہ لوگ رہتے ہیں۔

ان کے مباحثوں اور سرگرمیوں میں تقسیم شدہ خاندانوں، خطرناک سفروں، مقامی معاشی جمود اور ازسرنو یکجائی میں درپیش مشکلات جیسے موضوعات پر غور کیا گیا۔ اس کا مقصد ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا تھا جو اپنے اُن دوستوں اور اہلخانہ کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

Drawing of human body with markings of human emotions (U.S. Embassy of Tegucigalpa)
نوجوانوں نے ترک وطن کے جذباتی اثرات کو بیان کرنے کے لیے ‘تکلیف’، ‘خوف’ اور “خوشی’ کے الفاظ استعمال کیے۔ (U.S. Embassy Tegucigalpa)

شرکا کو مختلف ٹیموں میں تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے اپنے اپنے انداز میں نوجوانوں کو پیغام دیا کہ اپنے آبائی علاقوں میں رہنا اور اپنے مستقبل کی تشکیل کرنا ہی ان کے لیے فائدہ مند ہے۔ سماجی میڈیا پر وہ #MeWeHonduras کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی پروگرام کے لیے تگوسیگالپا میں امریکی سفارت خانے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی جانب سے مالی معاونت اور رہنمائی فراہم کی گئی۔

“می وی انٹرنیشنل” کے بانی محسن محی الدین نے بتایا کہ ان لوگوں نے اپنی قائدانہ اور ابلاغ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ”ماضی کے اپنے صدمات اور خوف” سے حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھایا۔

Three seminar participants listening and writing ideas (U.S. Embassy of Tegucigalpa)
(بائیں سے دائیں) ڈونیا پیرڈومو، ویلسکا راڈریگز اور فرنینڈو فرنینڈز اپنی ثقافتی بنیادوں سے متعلق ایک پراجیکٹ کے دوران۔ (U.S. Embassy of Tegucigalpa)

ایک ٹیم نے ”کیمپ برین ڈرین  ” نامی پروگرام منعقد کرانے کے لیے ایک یونیورسٹی کے ساتھ شراکت کی جہاں طلبا نے نوکری کے مواقع  ڈھونڈنے کے لیے آجروں کےساتھ روابط قائم کیے۔ کیلکس کی ٹیم نے سماجی میڈیا کے لیے ویڈیو کی ایک سیریز تیار کی جس میں پیچھے رہ جانے والے لوگوں پر مرتب ہونے والے ترک وطن کے منفی اثرات پیش کیے گئے۔

ان ٹیموں نے اپنے منصوبے اگست میں ”اپنی کہانی تبدیل کریں”  نامی پروگرام میں پیش کیے۔ یہ پروگرام ہنڈراس سے غیرقانونی ترک وطن کی روک تھام کے لیے چار برسوں سے ہر سال منائے جانے  والے مہینے کا حصہ تھا۔

محی الدین کے مطابق ”ان نوجوانوں نے آن لائن ویڈیوز کے ذریعے ہزاروں افراد تک رسائی حاصل کرنے” کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر منعقد کی گئی ورکشاپوں کے ذریعے بیسیوں دیگر افراد تک بھی  رسائی حاصل کی۔

اس ویڈیو میں کیلکس کی کہانی ان کے اپنے الفاظ میں پیش کی گئی ہے۔

[نوٹ: وڈیو ہسپانوی زبان میں ہے جس کا انگریزی ترجمہ سکرین پر پیش کیا گیا ہے۔]