
اس ڈیجیٹل دور میں ہولوکاسٹ سے انکار اور تحریف کے پھیلتے ہوئے خطرناک پیغامات کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے رہنما مل کر کام کر رہے ہیں۔
ہولوکاسٹ کی یاد کا بین الاقوامی اتحاد، ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں ہولوکاسٹ کے بارے میں تعلیم، تحقیق اور اس کو یاد رکھنے میں مدد کرتا اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کی تشریح کرتا ہے۔ اس کے مطابق “ہولوکاسٹ کا انکار ہولوکاسٹ کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے، نازی ازم اور يہود دشمنی کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔” ہولوکاسٹ کے حقائق کی تحریف “ہولوکاسٹ کے بعض پہلوؤں کو حقائق کے طور پر تسلیم تو کرتی ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ مختلف طریقوں سے اور مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہولوکاسٹ سے چشم پوشی کرتی ہے، اس کی تحقیر یا اسے غلط انداز سے پیش کرتی ہے۔” دنیا بھر کے رہنما تیزی سے يہود دشمنی کی ان شکلوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

تحریف اکثر صریح انکار سے زیادہ پيچيدہ اور مضر ہوتی ہے اور اسے پورے سیاسی منظر نامے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم جب سے کووڈ -19 کی وبا شروع ہوئی ہے انتہا پسندوں نے ہولوکاسٹ کی تحریف کو تیزی سے ایسے طریقوں سے استعمال کیا ہے جو جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لازمی ویکسین لگوانے کے احکامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (نازیوں کی طرف سے یہودیوں پر مسلط کیے جانے والے ستاروں کی طرح) یہ لوگ پیلے ستارے پہنتے ہیں اور اپنے آپ کو متاثرین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈے صحت عامہ کے ماہرین پر عدم اعتماد کو فروغ دیتے اور ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یاد کی توہین کرتے ہیں۔
ہولوکاسٹ کے امور کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی خصوصی ایلچی، ایلن جرمین کا کہنا ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے والے کچھ لوگ نازیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والوں کے کردار کو کم کرکے ہولوکاسٹ میں ملوث افراد کی ساکھ کو بحال کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ہولوکاسٹ کی تحریف جو بھی شکل اختیار کرے یہ “ہولوکاسٹ کے اُس جرم کو گھٹاتی ہے جس نے ايک قوم کو منظم طور پر فنا کیا۔” امریکہ کے ہولوکاسٹ کے یاد گار میوزیم کے رابرٹ ولیمز ہولوکاسٹ کی یاد کے بین الاقوامی اتحاد ميں امریکی وفد کے ایک سینئر رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہولوکاسٹ کا انکار ایک خطرہ ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ تاہم شمالی امریکہ اور یورپ میں یہ حقائق کے مسخ کیے جانے کی نسبت کم پایا جاتا ہے۔ “یہ سازشی تھیوری اور يہود دشمنی کی زیادہ خطرناک شکلوں کے لیے ‘گیٹ وے ڈرگ’ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ اور اسے بھرتی کرنے، بنیاد پرست بنانے اور وسیع ثقافتی اور سماجی اختلاف کے بیج بونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔”

امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار کی حیثیت سے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن جن کے سوتیلے والد ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے افراد میں شامل تھے ان مسائل کو اجاگر کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ جو لوگ عدم استحکام پیدا کرنے اور جمہوریت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں وہ اکثر ہولوکاسٹ پر شک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے جب دوسرے لوگ ہولوکاسٹ کے جرائم کے بارے میں حقائوکو مسخ کرنے یا اسے حقیر ثابت کرنے کی کوشش کریں تو ہم حقائق کو تحفظ دینے کے لیے ماضی کے بارے میں سچ بولیں۔”