ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کی اولادوں کی محکمہ خارجہ میں خدمات

ہولوکاسٹ کی یاد کے عالمی دن کے موقع پر دنیا ہولوکاسٹ میں قتل کیے جانے والے 60 لاکھ یہودیوں اور لاکھوں مزید اُن یہودیوں کو یاد کرتی ہے  جو نازیوں اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوئے اور مارے گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم زندہ بچ جانے والوں کا احترام کرتے ہیں جن کے ذاتی تجربات ہمت افزائی کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

محکمہ خارجہ میں ہولوکاسٹ کے مسائل کے لیے خصوصی مندوب، ایلن جرمین نے کہا، “ہولوکاسٹ کی یاد کا عالمی دن” ہمیں ہولوکاسٹ کی شدت اور اس کے اس سبق پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے اور یہ کہ جب نفرت پر قابو نہ پایا جائے تو معاشرے کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔”

اس وقت امریکی محکمہ خارجہ کے لیے کام کرنے والی ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کی اولادیں اپنے خاندان کے ہولوکاسٹ کے دوران موت سے بچ جانے والے افراد کے متعلق وہ کہانیاں سنا رہے ہیں جنہوں نے اں کی زندگیوں کی صورت گری کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے پیشوں کے انتخاب میں بھی مدد کی۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے ایک فرد کے سوتیلے بیٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کے سوتیلے والد کی “کہانی نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ اس نے مجھے سکھایا کہ ہماری دنیا میں برائی وسیع پیمانے پر ہوسکتی ہے اور ہوتی بھی ہے – اور یہ کہ ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔”

ہولوکاسٹ کی یاد کا عالمی دن اس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب 1945 میں پولینڈ میں آشوٹز-برکیناؤ کے مشقتی اور قتل عام کے کیمپ کو آزاد کرایا گیا تھا۔ ذیل میں ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کی اولادوں میں سے اُن تین افراد کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جنہوں نے اپنے رشتہ داروں کی تاریخ سے متاثر ہو کر بین الاقوامی امور اور سفارت کاری کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ زندگیوں کے انتخاب کے فیصلے کیے۔

پانامہ میں امریکی سفارت خانے کے، مارک مشکن

مارک مشکن کے دادا، سیموئیل گولڈ برگ آشوٹز- برکیناؤ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ مشکن اب ایک  فارن سروس افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہولوکاسٹ کے مسائل میرے لیے انسانی حقوق کی ایک مبہم تشویش سے بڑھکر ہیں؛ وہ انتہائی ذاتی نوعیت کے ہیں۔”

انہوںے نے بتایا کہ اُن کے دادا آشوٹز میں رات بھر چمنیوں سے نکلتے ہوئے دھوئیں کو یاد کیا کرتے تھے۔ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ اس رات کیمپ میں موجود روما نسل کے سب لوگوں کو مار کر جلا دیا گیا تھا۔

مشکن نے بتایا، “انہوں نے آسمان کی طرف منہ کرکے خدا کی طرف دیکھا اور پوچھا، ‘کیا ان سب لوگوں نے ایک ہی ‘جرم’ کیا ہے کہ انہیں جلا دیا جائے؟”  نازیوں کے مطابق ان کا “جرم” روما ہونا تھا۔

 مارک مشکن نے اپنے دادا کی تصویر پکڑے ہوئے ہیں۔ (Courtesy Mark Mishkin)
زنجیر سے اوپر نیچے جڑیں تختیوں کے برابر میں کھڑے مارک مشکن نے ایک بوڑھے آدمی کی تصویر اٹھائی ہوئی ہے۔ (Courtesy Mark Mishkin)

مشکن نے کہا کہ ان کے دادا دادی کے تجربے اور امریکہ سے محبت نے انہیں محکمہ خارجہ کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی۔ “امریکہ نے میرے خاندان کے لئے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے میری ممنوعیت مجھے ہر روز اپنا بہترین کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔”

اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کے جوناتھن شرائر

جوناتھن شرائر ہولوکاسٹ میں سفارت کاروں کے ذریعہ بچائے گئے ایک خاندان کی اولاد ہیں۔ ان کے والد، دادا دادی اور پردا پردادی کئی ممالک کے سفارتی حکام کی مدد سے پولینڈ سے فرار ہو کر  امریکہ آئے۔ شرائر کے دادا کا ولینیئس، لتھوینیا میں واقع سویڈش سفارت خانے میں ایک دوست تھا جس نے انہیں کونس، لیتھوینیا میں جاپانی قونصل، چیون سوگیہارا اور ڈچ اعزازی قونصل، جان زوارٹینڈیک کا حوالہ دیا۔

 جوناتھن شرائر چھوٹی چھوٹی موم بتیاں جلا رہے ہیں اور اُن کے سامنے میز پر مزید موم بتیاں پڑی ہوئی ہیں۔ (U.S. Embassy Jerusalem/David Azagury/)
جوناتھن شرائر ہولوکاسٹ کی یاد کے عالمی دن 2021 کے موقع پر یادگاری موم بتیاں روشن کر رہے ہیں۔ (U.S. Embassy Jerusalem/David Azagury/)

سوگیہارا اور زوارٹینڈیک نے انہیں”زندگی بھر کے ویزے” جاری کیے۔ اِن ویزوں اور  سویڈن کی حفاظتی ضمانت کی دستاویزات نے اس خاندان کے، پہلے ٹرانس سائبیرین ریلوے سے اور بعد میں یوکاہاما، جاپان تک کے سفر کو ممکن بنایا۔ شرائر کا خاندان ہولوکاسٹ کے پناہ گزینوں کے ساتھ جاپان سے امریکہ جانے والے آخری بحری جہازوں میں سے ایک جہاز پر سوار ہوا۔

جب امریکہ نے کوٹہ ختم ہو جانے کی وجہ سے شرائر خاندان کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تو یہ خاندان میکسیکو سٹی چلا گیا۔ ان کا خاندان صرف اس وجہ سے وہاں رہنے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے دادا جلاوطن پولش حکومت کے  سفارت خانے میں تجارتی اتاشی کے طور پر کام کر رہے تھے۔  بعد میں کئی برسوں بعد اس خاندان کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔

شرائر آج کل یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن ہیں۔ انہوں نے بتایا، “ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کے طور پر ان کی ہمت اور صاحبان وسیلہ ہونے نے مجھے انتہائی متاثر کیا اور ایک امریکی سفارت کار بننے کا فیصلہ کرنے میں میری مدد کی۔”

واشنگٹن کی سوزن آر بینڈا

سوزن آر بینڈا کے دونوں والدین کا شمار سابقہ چیکوسلواکیہ کے ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں میں ہوتا ہے۔ بینڈا کی والدہ تھیرشن شٹاڈ اور آشوٹز سے بچیں۔ ان کے والد ایشیا فرار ہو گئے جہاں انہیں جاپانیوں نے قید کر لیا۔ بعد میں وہ امریکہ آ گئے۔ سوزن بینڈا کے دادا دادی کو پولینڈ کے چیلمنو کے قتل عام کے کیمپ میں قتل کر دیا گیا تھا۔

بینڈا محکمہ خارجہ میں وکیل ہیں۔ بینڈا کہتی ہیں، “جب میں چھوٹی تھی تو میرے والدین نے اپنے ماضی کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔ مجھے بس یہ پتہ تھا کہ ہم یہودی ہیں، اُن کا انگریزی بولنے کا لہجہ مختلف تھا، اور ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔”

بینڈا کی والدہ نے پہلی بار ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے کے طور پر اپنے تجربے کے بارے میں 1979 میں کھلے عام اُس وقت بات کی جب ییل یونیورسٹی کے زبانی تاریخ کے منصوبے کے لیے ان کا انٹرویو لیا گیا۔ ان کے والد ییل یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اُن کا 1971 میں انتقال ہو گیا.

 "اے لائف از چینجڈ فار ایور" نامی کتاب جس کے سرورق پر ہیٹ اور کوٹ پہنے ہوئے ایک چھوٹی بچی دکھائی گئی ہے۔ (State Dept./D.A. Peterson)
سوزن بینڈا کی والدہ، ایوا کی ایک کتاب کے سرورق پر چھپی تصویر۔ اس کتاب میں ہولوکاسٹ کے دوران بچوں کے تجربات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بینڈا کے باب کا عنوان ہے “پراگ سے تھیرشن شٹاڈ اور واپس”۔ (State Dept./D.A. Peterson)

20 سال سے زائد عرصے تک محکمہ خارجہ کی ایک ملازمہ کی حیثیت سے بینڈا نے وکیل کے طور پر کام کر کےانصاف کے حصول کا اپنا ہدف حاصل کیا۔ ان کے بھائی بھی اسی محکمے میں کام کرتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی اپنی حیثیتوں میں اپنے والدین کے  نئے ملک میں جس سے وہ محبت کرتی ہیں “نفرت، تقسیم اور جبر کی آوازوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا میں جمہوریت اور انصاف کی مشعل راہ کے طور پر ااس کا [امریکہ کا] وعدہ پوراکرتے ہیں۔”