چیری ڈینیئلز ہولوکاسٹ کے مسائل کے لیے تعینات کی جانے والی امریکہ کی نئی سفیر ہیں مگر اُن کی سابقہ ذمہ داریاں انہیں المناک واقعات اور احتساب کی ضرورت کے بارے میں پہلے ہی کافی کچھ سکھا چکی ہیں۔
وہ اپنی سفارتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں ہولوکاسٹ سے تار تار ہونے والے ممالک میں شامل، کروئیشیا اور بوسنیا اور ہرسگووینا میں رہ چکی ہیں جہاں 1995ء میں سریبرے نیتسا کے مقام پر قتل عام کے ذریعے نسل کشی کی گئی۔ وہ ناروے میں بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ یاد رہے کہ 1940 اور 1945 کے درمیان بیدخلی کے بعد سینکڑوں یہودیوں کو موت کا سامنا کرنے کے لیےناروے بھیجا گیا۔
اسی طرح وہ بلغراد اور اسرائیل میں بھی تعینات رہ چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اِن ممالک میں حاصل ہونے والے تجربات “ہولوکاسٹ کے مسائل کو سمجھنے میں میری مدد کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے۔”
1999 میں محکمہ خارجہ میں قائم کیا جانے والا ہولوکاسٹ کے مسائل کے لیے خصوصی سفیر کا دفتر ایک ایسے یورپ میں امریکی مفاد کو فروغ دیتا ہے جو جمہوریت، تکثیریت اور انسانی حقوق کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ اس دفتر کا مشن ٹرمپ انتظامیہ کی دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔
“(ہولوکاسٹ) سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نسل کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اُن کے سیکھے جانے والے سبق — اور اُن کی یاد داشتیں اور داستانیں — اُن کے ساتھ ہی نہ چلی جائیں۔ آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ماضی کے تاریک ابواب کا سامنا کرنا۔”
~ چیری ڈینیئلز، ہولوکاسٹ کے مسائل کی امریکہ کی خصوصی سفیر
چشم دید گواہ
ڈینیئلز اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ ہولوکاسٹ کو مناسب انداز سے یاد رکھا جائے اور منایا جائے۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ “ہولوکاسٹ کی تاریخ کا نوجوان لوگوں سے تعلق جوڑا جائے۔ ہمیں اسے سچائی سے اور درستگی سے سکھانا ہوگا۔”
اُن کا نوجوان لوگوں اور ہولوکاسٹ سے زندہ بچ نکلنے والوں اور اُن کے خاندانوں سے ملنے کا منصوبہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زندہ بچ نکلنے والے یہ لوگ دوسری عالمی جنگ میں بچے تھے، اور “اُن کی کہانیاں سننا اور سوال پوچھنا اہم ہیں۔”
اس کے علاوہ انہوں نے کہا، “نوجوان لوگوں کو ہولوکاسٹ تک پہنچانے والی 1930 کی دہائی کی علامات کو شناخت کرنے اور غلط بیانیوں، انکار اور ترمیمیت کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔”
ڈینیئلز امریکہ کے ہولوکاسٹ میوزیم کے بورڈ کی رکن ہیں اور ہولوکاسٹ کی یاد کے بین الاقوامی اتحاد نامی ادارے میں امریکی وفد کی قیادت کرتی ہیں۔ اس اتحاد میں 33 رکن ممالک شامل ہیں۔ وہ اُس دفتر کی بھی سربراہ ہیں جو ہولوکاسٹ کے دور کے اثاثوں کو اُن کے حقدار مالکان کو واپس کرنے کی امریکی پالیسی وضح کرنے کے ساتھ ساتھ اِس پالیسی کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ اس طرح ہولوکاسٹ سے زندہ بچ نکلنے والوں اور اُن کے ورثاء کو کسی نہ کسی شکل میں انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، “ہم اپنے بین الاقوامی شراکت کاروں کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کرتے ہیں۔”