ہیوسٹن میں مسلمان نوجوان ضرورت مندوں کی خدمت کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں

دانیا البابہ جب ہیوسٹن یونیورسٹی ٹیکساس میں دوسرے سال کی طالبہ تھیں تو وہ اپنی کمیونٹی کی خدمت کے لئے مزید کام کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے اںہوں نے اور اُن کے چند ایک دوستوں نے فیصلہ کیا کہ غیرمنفعتی تنظیم  یونائٹیڈ مسلم ریلیف یو ایس اے کی ایک مقامی شاخ کھولی جائے۔

تین سال بعد البابہ اور ان کے دوست، ٹیکساس کے اُن لوگوں کے گھروں پر جا کر ذاتی طور پر دستک دے رہے تھے جو ہیوسٹن میں اپریل میں آنے والے ایک تاریخی سیلاب سے متاثر ہوئے تھے اور جس میں آٹھ افراد ہلاک اور کئی ملین  ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

البابہ کو ایک ساتھی طالبہ، بسانت الشاذلی کے ہمراہ ہیوسٹن شہرسے تقریباً 60 کلو میٹر دور ٹیکساس کے 2,400  کی آبادی والے “والر”  نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں بھیجا گیا۔  یہ نوجوان خواتین حیرت زدہ  ہو کر یہ سوچ رہی تھیں کہ پتہ نہیں اُنہیں وہاں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

البابہ نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے “ہمیں اپنی شفقت، عاجزی اور محبت سے حیران کر کے  رکھ  دیا۔ ہم ایک ایسی خاتون سے ملے جس کے گھر کو یقیناً نقصان پہنچا ہو گا اور پوچھا کہ کیا ان کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ‘آپ میرے بارے میں فکر مت کریں۔ میرے پڑوسی کے گھر میں بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔”  اس موسم خزاں میں گیلویسٹن میں ٹیکساس یونیورسٹی کے میڈیکل سکول جانے والی 21 سالہ البابہ نے کہا کہ ”ہمیں ان کی بےغرضی نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔“

ان رضاکاروں نے ایک شراکت کار تنظیم، اسلامِک ریلیف یو ایس اے کے ساتھ  مل کرکام کیا۔ اس تنظیم کی امریکی ریڈ کراس کے ساتھ شراکت کاری ہے۔ ان  رضاکاروں نے ہر گھر انے کو سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ  لگایا اور متعلقہ اداروں کو اِن نقصانات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔

Three people repairing damaged house (Courtesy of Islamic Relief USA)
اسلامِک ریلیف یو ایس اے کے رضاکار ہیوسٹن کے علاقے میں سیلاب سے متاثرہ ایک مکان پر کام کر رہے ہیں۔(Courtesy photo)

2015ء  میں ہیوسٹن یونیورسٹی سے  گریجوایشن کرنے والی21 سالہ الشاذلی، موسم خزاں میں اکاوًنٹنگ کی ایک بین الاقوامی فرم میں کام شروع کریں گیں۔ اُن کا کہنا ہے،  ”جو مجھے سب سے زیادہ یاد آتا ہے وہ اُن [لوگوں] کی شکرگذاری، مسکراہٹیں  اور حتٰی کہ اُن کا ہمیں گلے لگانا تھا۔ زیادہ تر[خاندان] اس بات پر ہکا بکا تھے کہ کیا کسی کو ان علاقوں میں آنے کی فکر بھی ہو سکتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں کوئی پوچھنے نہیں آئے گا۔“

البابہ نے بتایا کہ سیلاب زدگان — زیادہ تر کم آمدنی والے، اقلیتی افراد — مسلمان نہیں تھے۔ ”ہمارے پڑوسی… ضرورت مند تھے، اور یہی چیز ہے جو اہمیت کی حامل تھی۔“

رمضان المبارک کے دوران رضاکار دوسرے طریقوں سے بھی مدد کر رہے ہیں۔ 11 جون کو یونائیٹڈ مسلم

ریلیف ہیوسٹن نے اپنے سالانہ ” رمضان بینیفِٹ ڈنر” میں،  یونائیٹڈ مسلم ریلیف یو ایس اے کے سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ،  بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں  حفظانِ صحت کے منصوبوں کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔

ہیوسٹن کے  رضاکار اندرونِ شہر رمضان کے ایک پراجیکٹ کا منصوبہ بھی بنا رہے ہیں۔  وہ ایسے میں ہیوسٹن کے بے گھر لوگوں کے لئے دوپہر کا کھانا تیار کریں گے جب وہ خود روزے سے  ہوں گے۔

Three women wearing hijabs and man carrying boxes and packages (Courtesy of Islamic Relief USA)
اسلامی ریلیف یو ایس اے کے رضاکار ہیوسٹن کے علاقے میں سیلاب کے متاثرین کے لیے امدادی سامان اُٹھائے ہوئے جارہے ہیں۔(Courtesy photo)

اپنے والر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے الشاذلی نے کہا کہ یہ ایک زندگی تبدیل کرنے والا تجربہ تھا: “رضاکارانہ کام

سے پہلے جب سیلاب کی وارننگ آتی تو ہم اپنے بارے، اپنے گھروں اور خاندان کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے … مجھے اب لگتا ہے کہ، ‘میں تو خیریت سے ہوں۔ آئیے ان لوگوں کی مدد کریں جو خیریت سے نہیں ہیں۔“

امریکہ میں رمضان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیجیے اور دیکھیے کہ امریکی مسلمان کس طرح 

 اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کی خدمت کرتے ہیں۔