ہیٹی کے زلزلے میں کام کرنے والے امریکی سفارت کاری کے ہیرو

ایک گھر کے ملبے پر کھڑا آدمی شفاف مائع سے بھری بوتل کو پھینک رہا ہے۔ (© Julie Jacobson/AP Images)
14 جنوری 2010 کو ایک آدمی پورٹ او پرنس، ہیٹی میں اپنے گرے ہوئے گھر میں ریفریجریٹر خالی کر رہا ہے۔ (© Julie Jacobson/AP Images)

محکمہ خارجہ اُن چار امریکی سفارت کاروں کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے جنہوں نے 2010ء میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا۔

12 جنوری 2010 کو پورٹ او پرنس کے باہر 25 کلومیٹر کے فاصلے پر زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کی شدت 7.0 درجے تھی۔ زلزلے اور اس کے بعد آنے والے زلزلے کے جھٹکوں سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور تباہی پھیلی۔ اس کے نتیجے میں بنیادی سہولتیں ختم ہو کر رہ گئیں اور شدید انسانی بحران پیدا ہوگیا۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پہلے سے موجود امریکی سفارت خانے کی ٹیم کی مدد کے لیے 95 قونصلر افسروں کو ہیٹی روانہ کیا تاکہ وہ زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کریں اور انہیں محفوظ جگہوں پر پہنچائیں۔ امریکی فوج کی شراکت سے انہوں نے:

  • انسانی بنیادوں پر ہیٹی کے 750 یتیموں کو امریکہ میں داخل ہونے اور امیگریشن کی منظوری دی۔
  • 240 پروازوں کے ذریعے  16,200 امریکی شہریوں کو ہیٹی سے نکالا۔ اِن میں سے 13,000 کو زلزلہ آنے کے 13 دن کے اندر ہیٹی سے نکالا گیا۔
  • بحران کے دوران ایک مواصلاتی مرکز قائم کیا جس نے 390,000 ٹیلی فون کالوں کا جواب دیا۔
  • 730 میڈیکل درخواستوں سمیت، قونصلر امداد کی 22,675 درخواستیں نمٹائیں۔
  • 325 کمسن بچوں کو امریکہ واپس جانے میں مدد کی۔

محکمہ خارجہ کے امریکی سفارت کاری کے ہیروز پروگرام کے تحت ماضی اور حال کے اُن ہیروز کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے جنہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کو فروغ دیتے ہوئے ذہانت، اخلاقیات اور جسمانی جرات کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے۔ 7 مئی کو راجر ریگو، جینیفر سیویج، ڈومنیک رینڈازو اور شینن فیرل کو ہیٹی میں ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

 چار افراد کی تصاویر کا مجموعہ۔ (تصاویر بشکریہ: راجر ریگو، جینیفر سیویج، ڈومنیک رینڈازو اور شینن فیرل)
بائیں طرف سے تصویر میں: راجر ریگو، جینیفر سیویج، ڈومنیک رینڈازو اور شینن فیرل۔ (تصاویر بشکریہ: راجر ریگو، جینیفر سیویج، ڈومنیک رینڈازو اور شینن فیرل)

جب زلزلہ آیا تو امریکی حکومت کے گیارہ ملازمین ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ رینڈازو ایئرپورٹ گئے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ رن وے کام کر رہا ہے یا نہیں۔

واپس سفارت خانے آتے ہوئے اُن کا سامنا سفارت خانے میں کام کرنے والے ہیٹی کے اپنے ایک ساتھی اور اُس کے بچے سے ہوا۔ اس آدمی نے اپنے گر جانے والے مکان کے ملبے تلے دبے اپنی بیوی اور دوسرے دو بچوں کو نکالنے کی کوشش کی مگر صرف وہ اور اُن کا بچہ ہی بچ سکے جنہیں رینڈازو نے طبی امداد کے لیے فوری طور پر سفارت خانے پہنچایا۔

ریگو ہیٹی نژاد امریکی سفارت کار ہیں اور وہ ہیٹی میں امریکی سفارت خانے میں کام کر چکے ہیں۔ جب ہیٹی میں زلزلہ آیا تو وہ میکسیکو میں امریکی قونصلیٹ میں کام کر رہے تھے۔ وہ اگلی صبح رضاکارانہ طور پر بذریعہ طیارہ پورٹ او پرنس روانہ ہوگئے تاکہ امریکی شہریوں کے انخلا کا بندوبست کرنے میں مدد کر سکیں۔ “میں ایک ایسے وقت لسانی مہارتوں اور تجربے کی شکل میں کچھ واپس لوٹانے کے قابل ہونے پر ذاتی طور پر مشکور تھا جب ہیٹی، مقامی طور بھرتی کیے گئے عملے کے میرے دوستوں اور میرے محکمے کو اِن چیزوں کی ضرورت تھی۔”

سیویج کو یاد ہے کہ افراتفری اور تباہ شدہ عمارتوں والے اس شہر میں امریکی سفارت خانہ امید کی کرنیں لیے کھڑا تھا جہاں اب بھی بجلی اور پانی دستیاب تھے۔ سیویج نے بتایا، “ہزاروں لوگ ہر روز سفارت خانے کے باہر نہ صرف قونصلر خدمات حآصل کرنے کے لیے لائنوں میں کھڑے ہوتے تھے بلکہ وہ طبی علاج، مالی مدد اور پناہ کے لیے بھی قطاروں میں کھڑے ہوتے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا کام تھا۔”

قونصلر افسر 16 سے لے کر 20 گھنٹوں کی شفٹوں میں کام کرتے تھے، وہ امریکی سفارت خانے کے فرش پر سوتے تھے، دن میں صرف ایک کھانا کھاتے تھے اوراُن دو غسل خانوں کو صاف بھی کرتے تھے جنہیں وہ 1,000 افراد کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔

اس تجربے نے کام کرنے والے تمام افراد کی زندگیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ فیرل عارضی طور پر ہیٹی میں تعینات کیے جانے والے عملے میں شامل تھیں۔ انہیں تباہ کاری کے بعد پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کی اُن کی مہارتوں کی بنا پر ہیٹی بھیجا گیا تھا۔ فیرل بتاتی ہیں، “گو کہ ہیٹی میں پہلی قونصلر ٹیموں کے اترنے کے بعد 10 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر موقع پر حاصل ہونے والا اُن دو ہفتوں کا تجربہ آج بھی میری زندگی میں تبدیلی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ایک خوفناک تباہی کے ردعمل میں وسائل اور عملے کی ناقابل یقین نقل و حرکت ایسی چیز ہے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے۔”

رینڈازو نے کہا ، “ہم نے آج تک بحیثیت امریکی سفارت کے جتنے بھی کام کیے ہیں اُن میں سے ہیٹی میں  ہم نے جو کام کیا ہے وہ سب سے اہم کام ہے۔”