یادگاریں تاریخ کو زیادہ جامع بنا سکتی ہیں

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح امریکی بھی اپنی قوم کی تاریخ کا احترام کرتے ہیں۔

وہ ان مردوں اور عورتوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جنہوں نے ان کے ملک کی بنیادیں رکھنے میں مدد کی، اس کی خدمت کرتے ہوئے بہادری کا مظاہرہ کیا اور اچھے اور برے وقتوں میں اس کی قیادت کی۔ وہ قومی یادگاروں پر اور پارکوں میں جاتے ہیں۔ وہ نئی کہانیوں کے بارے میں جاننے کے لیے امریکہ کے بارے میں کتابیں پڑھتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں امریکیوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد نے یہ جانا ہے کہ ان کی تاریخ بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ بھی ہے اور تواتر کے ساتھ فتوحات کی اتنی زیادہ حامل نہیں ہے جتنا انہوں نے کبھی سوچا تھا۔ نئے علمی ماہرین سابقہ پسماندہ امریکیوں کی خدمات اور کہانیوں اور اُن واقعات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو قوم کے فخر کی بجائے شرمندگی کا زیادہ باعثت بنے ہیں۔ امریکی یادگاریں،عجائب گھروں میں ہونے والی نمائشیں، ادب اور یہاں تک کہ میسیجنگ کے ایپس سب اس بات کی عکاسی کرنے لگے ہیں۔

تھامس جیفرسن کو لے لیں۔ سینکڑوں سالوں سے امریکی سکولوں کے بچوں کا ان سے تعارف بانی بابائے قوم، آزادی کے اعلامیے کے مصنف، اور امریکہ  کے تیسرے صدر کی حیثیت سے ہوتا رہا۔ لیکن جیفرسن نے اپنی زندگی میں 600 سیاہ فام لوگوں کو غلام بنایا اور ان غلاموں میں سے ایک غلام عورت سیلی ہیمنگز کے کم از کم چھ بچوں کے باپ بنے۔ مونٹی سیلو کے نام سے  ورجینیا میں جیفرسن کا عالیشان گھر تھا۔ کسی زمانے میں یہ ایک جاگیر ہوا کرتی تھی جس پر غلام کام کیا کرتے تھے۔

2000ء میں، تھامس جیفرسن فاؤنڈیشن نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں جیفرسن کی ہیمنگز کے بچوں کی ولدیت کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ آج ان کی زندگی کا یہ پہلو  مونٹی سیلو کے ٹور کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ یہ نمائشوں اورمونٹی سیلو کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کے لیے چھاپے گئے مواد میں بھی شامل ہے۔ اصل کہانی اب سامنے ہے۔ مگر دیکھنے کے لیے آنے والوں کو ایک نئی، اور جامع کہانی یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ امریکہ نے جس طرح معاشی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ترقی کی ہے اسی طرح غلامی بھی اُس کا ایک حصہ ہے۔

مونٹی سیلو کے تاریخی تشریح کے منیجر، برانڈن ڈلارڈ کہتے ہیں، “غلام رکھنے والے ایک شخص کی حیثیت سے جیفرسن کی شراکت کو سمجھنا، نسل اور طاقت کے بارے میں ان کے خیالات، اور ان کے غلام رکھے جانے والے افراد کے ساتھ ذاتی تعلقات کو سمجھنا جیفرسن اور اُس دنیا کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں جس میں انہوں نے زندگی گزاری۔ جتنا بہتر امریکی یہ بات سمجھتے ہیں اتنا ہی بہتر وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔

 یادگاروں کے پیغام

ایلزبیتھ الیگزینڈر، ایک نامور شاعرہ اور مضمون نگار اور اینڈریو ڈبلیو میلن فاؤنڈیشن کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ  یادگاریں اور میموریل امریکیوں کو دکھاتی ہیں کہ کون اور کیا قابل احترام چلا آ رہا ہے یا ان پر اثرانداز ہونا جاری رکھے ہوئے ہے، اور وہ اپنے ماضی اور مستقبل کو کیسے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

فاؤنڈیشن نے حال ہی میں امریکی تاریخ کی مکمل تصویر پیش کرنے اور موجودہ یادگاروں کی تزئین و آرائش کے لیے اپنے 250 ملین ڈالر مالیت کے ‘یادگار پروجیکٹ’ کا آغاز کیا ہے تاکہ ان لوگوں کو شامل کیا جا سکے جنہیں تاریخی لحاظ سے تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔

اس پروگرام کے تحت فنڈ کیے جانے والے ایک پراجیکٹ کے ذریعے لاس اینجلیس کاؤنٹی کے آرٹ کے میوزیم کے آرٹسٹوں اور ٹکنالوجسٹوں کی، میسیجنگ ایپ، سنیپ چیٹ کے لیے ورچوئل یادگاروں اور دیواروں پر تصویریں بنانے میں مدد کی جائے گی۔

 مصور کی بنائی ہوئی جھیل، کنارے اور آسمان کی تصویر پر پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں۔ (© Courtesy of Snap Inc.)
آرٹسٹ ایڈا پنکسٹن کی “اوپن ہینڈ از بلیسڈ” تصویر میں ایک غلام عورت، بڈی میسن کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جس نے اپنے آزادی کے لیے کامیاب مقدمہ لڑا اور ماہر بشریات بن گئیں۔ یہ فن پارہ فاؤنڈیشن کی مدد سے لاس اینجلیس کاؤنٹی اور سنیپ چیٹ مانیومینٹل پراجیکٹ پراسپیکٹیوز نامی پراجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر تخلیق کیا گیا۔ (© Courtesy of Snap Inc.)

کچھ یادگاریں امریکیوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ ان کی قومی تاریخ میں ناانصافیاں بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں الیگزینڈر کیلی فورنیا میں منزانار قبرستان نامی یادگار کی طرف اشارکرتی ہیں۔ امریکی حکومت نے یہ یادگار  دوسری جنگ عظیم کے دوران اُن جاپانی نژاد امریکیوں کی یاد میں تعمیر کی ہے جو جاپانیوں کو زیرحراست رکھنے والے کئی کیمپوں میں شامل منزانار نامی کیمپ میں ہلاک ہوئے تھے۔ جاپانیوں کے پرل ہاربر پر حملے کے بعد جاپانی نژاد امریکیوں کو کیمپوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ جاپانی زبان کے حروف تہجی میں کانجی کہلانے والی اشکال  میں چار پہلووں کے ستون کی شکل میں بنائی جانے والی اس یادگار کو “روح کو تسلی دینے والا مینار” کہا جاتا ہے۔

 چار پہلووں والی شکل میں تعمیر کیے گئے سفید ستون پر جاپانی حروف تہجی لکھے ہوئے ہیں جبکہ پس منظر میں صحرا اور اور برفانی پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں۔ (© Dennis K. Johnson/Alamy)
امریکی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 120,000 جاپانی نژاد امریکیوں کو حراست میں لے لیا۔ منزانار قبرستان کی یادگار منزانار کیمپ میں ہلاک ہونے والے 150 افراد کو خراج تحیس پیش کرتی ہے جن میں سے کچھ لوگ اس یادگار کے قریب ہی دفن ہیں۔اس کے ایک کتبے میں کہا گیا ہے کہ اسے منزانار جاپانیوں نے تعمیر کیا تھا۔ (© Dennis K. Johnson/Alamy)

الیگزینڈر کیلی فورنیا میں واقع سان ہوزے سٹیٹ یونیورسٹی میں سیزر شاویز کی یادگار کی جانب بھی توجہ دلاتی ہیں۔ 2008 میں تعمیر کی جانے والی اس یادگار میں تصویری کتبے نصب ہیں جن میں خود شاویز کی بجائے کھیتوں میں کام کرنے والے عام محنت کشوں کو دکھایا گیا ہے۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں شاویز ان محنت کشوں کے پرزور حمائتی تھے۔ الیگزینڈر کہتی ہیں کہ ستائش سے محروم بہت سے طبقات کی کہانیاں سنائے جانے کی منتظر ہیں۔

رٹگرز یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر، ماریسا فونٹیس کے خیال میں ایسی یادگاریں جن میں “اجتماعی اعتراف”  شامل ہوتا ہے وہ جو کہانیاں بیان کرتی ہیں وہ “لوگوں کی بہت بڑی تعداد کا حوصلہ بڑہاتی ہیں۔”

 محراب والی یادگار کے سامنے فوارہ۔ (© Ken Wolter/Alamy)
سان ہوزے سٹیٹ یونیورسٹی کے کیمپس پر بنے سیزر شاویز کی یادگار سلوا خاندان کے فوارے کے پیچھے بنائی گئی ہے۔ (© Ken Wolter/Alamy)

 تاریخی اسباق

سماجی تحریکیں کسی ملک کے تاریخ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے قومی تبدیلی کا موجب بن سکتی ہیں۔ اس ضمن میں فونٹیس شہری حقوق کی اس تحریک کا حوالہ دیتی ہیں جس نے حکومتی عہدیداروں کو سکولوں کے نئے نام رکھنے اور سکولوں اور سڑکوں کے نام  رکھنے یا نام تبدیل کرنے اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سالانہ قومی تعطیل کرنے کے مطالبات کیے۔

فونٹیس نےکہا، “عوامی دباؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا تاکہ ایک فرد کی حیثیت سے افریقی نژاد امریکیوں کی جانب سے سے کی جانے والی محنت اور اور حقیقی معنوں میں ملک کے پرامن تبدیلی کو گلے لگانے کو یادگار بنایا جا سکے۔”

امریکی یادگاریں بنانے کے لیے نئے لوگ اور واقعات دریافت کرتے جا رہے ہیں جبکہ بعض دیگر یادگاریں اب کم اہم محسوس ہونے لگی ہیں۔ غربت کا جنوبی قانونی مرکز امریکیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے گروہوں پر نظر رکھتا ہے۔ اس گروپ نے بتایا کہ 2020ء میں 160 ایسی یادگاروں/علامات کو ختم کیا گیا جن کے ذریعے 1861ء میں امریکہ سے علیحدہ ہونے والے جنوبی ریاستوں کے وفاق کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ اِن میں سے 94 یادگاروں کی شکل میں تھیں۔ یاد رہے کہ 1861ء کی علیحدگی کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ مئی 2020 میں ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں قتل ہونے والے افریقی نژاد امریکی، جارج فلائیڈ کے قتل اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد اِن یادگاروں کو مٹانے میں تیزی آئی ہے۔

 گھوڑے پر بیٹھے ایک آدمی کے مجسمے کو ایک کھلے ٹرک میں لے جایا جا رہا ہے۔ (© Ryan M. Kelly/AFP/Getty Images)
جولائی میں وفاقی جنرل رابرٹ ای لی کے مجسمے کو ورجینیا کے شہر شارلٹ ول کے ایک پارک سے اکھیڑ کر لے جایا جا رہا ہے۔ چار سال قبل اس کو ہٹائے کی خبر سن کرانتہا پسند سفید فاموں کا جتھہ تشدد پر اتر آیا اور ایک عورت کو جان سے مار ڈالا۔ (© Ryan M. Kelly/AFP/Getty Images)

جوبائیڈن نے 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امریکی صدارت کے امیدوار کی حیثیت سے اعلان کیا کہ کولمبس ڈے منانے کی بجائے وہ آبائی امریکیوں کو ملک کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آبائی اقوام کا دن منائیں گے۔ اِن میں کوڈ میں بات کرنے والے ناوا ہو قبیلے کے لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کو شکست دینے میں مدد کی تھی۔ بائیڈن نے کہا کہ امریکہ، بالخصوص آبائی لوگوں کے حوالے سب کے لیے مساوات کے اپنے وعدے پر پورا نہیں اترا۔ اِن آبائی لوگوں نے صدیوں کی بدسلوکی برداشت کی اور وعدہ خلافیوں کا سامنا کیا۔ انہوں نے کہا، “یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا افسوسناک پہلو ہے جسے ہر امریکی کو جاننا چاہیے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔”

ملک کی تاریخ کا نیا فہم پوری امریکی ثقافت میں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ کھیلوں کی بعض ٹیمیں آبائی امریکیوں کی غیرحساس نمائندگیوں پر تنقید کا نشانہ بننے کے بعد اپنے نام تبدیل کر رہی ہیں۔ بیس بال کی ٹیم، “دا کلیولینڈ انڈینز” دسمبر میں “کلیولینڈ گارڈینز” بن جائے گی۔ واشنگٹن نیشنل فٹبال لیگ کی رکن ٹیم نے آبائی امریکیوں کے لیے اپنا تحقیر آمیز نام بدل دیا ہے اور اب وہ صرف واشنگٹن فٹبال ٹیم کہلاتی ہے۔ اسی طرح بہت سی یونیورسٹیوں اور سکولوں کی ٹیمیں بھی انہی وجوہات کی بنا پر اپنے نام تبدیل کر رہی ہیں۔

یونیورسٹی آف مانچسٹر کے پروفیسر، گیری یانج نے این پی آر ریڈیو کو بتایا، “تاریخ پتھر پر کوئی لکیر نہیں ہوتی۔ ہمارے خیالات وہ نہیں رہے جو 50 برس پہلے ہوا کرتے تھے اور 50 سال بعد  ایک بار پھر یہ بدل جائیں گے۔”