جب 6 دسمبر کو صدر ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے تو انہوں نے امریکہ کے محکمہ خارجہ کو یہ ہدایات بھی دیں کہ سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کی جائیں۔
صدر نے خصوصی طور پر ایک امریکی قانون کا حوالہ دیا جسے یروشلم سفارت خانے کا قانون کہا جاتا ہے۔ یہاں پر اس قانون کے بارے میں تفصیل دی جا رہی ہے … اور یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس اعلان کے بعد اب آگے کیا ہوگا۔
یروشلم سفارت خانے کا قانون کیا ہے؟
1995 میں کانگریس نے یروشلم سفارت خانے کا قانون منظور کیا اور وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرے۔ یہ قانون ہر خودمختار ملک کے اپنا دارالحکومت نامزد کرنے کے حق کی تجدید کرتا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے 7 دسمبر کو کہا، “حقیقتِ حال یہ ہے کہ آج اسرائیل کی حکومت، اس کی عدالتیں، اس کے وزیراعظم کا دفتر، تمام یروشلم میں موجود ہیں۔ لہذا یہ محض اُس حقیقت کا اعتراف ہے جو زمین پر موجود ہے۔ صدر تو صرف امریکی عوام کی رائے کو عملی شکل دے رہے ہیں۔”
تو پھر امریکہ کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
20 برس سے زائد عرصے تک پچھلے امریکی صدور نے اس قانون کے اُس “استثنا” کا استعمال کیا جو امریکہ کو اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے میں تاخیر کی اجازت دیتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے وضاحت کی، “صدور نے یہ استثنا اس یقین کے ساتھ جاری کیے کہ یروشلم کو تسلیم کرنے میں تاخیر سے امن کے مقصد کو فروغ حاصل ہوگا۔” اِن صدور نے ” اپنے بہترین فیصلوں کی بنیاد اُن حقائق پر رکھی جنہیں انہوں نے اُس وقت اپنے انداز سے سمجھا۔”
صدر ٹرمپ نے کہا کہ دو عشروں کے استثناؤں کے بعد بھی “ہم اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے کسی پائیدار سمجھوتے کے کہیں نزدیک تک بھی نہیں پہنچ پائے۔ یہ فرض کرنا ایک حماقت ہوگی کہ اُسی فارمولے کو دہرانے سے کوئی مختلف یا بہتر نتیجہ سامنے آئے گا۔”
کیا یروشلم قانون کو وسیع البنیاد حمایت حاصل ہے؟
یہ قانون کانگریس نے دوطرفہ بھاری اکثریت سے منظور کیا اور آج سے چھ ماہ قبل سینیٹ نے بھی متفقہ ووٹ سے اس کا اعادہ کیا۔
صدر کا یہ اعلان مشرق وسطی میں امن کی کاوشوں کو کس طرح متاثر کرے گا؟
جیسا صدر چھ دسمبر کو کہہ چکے ہیں کہ ” اس فیصلے کا کسی لحاظ سے یہ مقصد نہیں کہ امن کے کسی پائیدار سمجھوتے میں سہولت مہیا کرنے کے ہمارے مضبوط عزم سے انحراف کیا جائے۔ ہم ایک ایسا سمجھوتہ چاہتے ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ایک عظیم معاہدہ ہو اور جو فلسطینیوں کے لیے ایک عظیم معاہدہ ہو۔”
امریکہ یروشلم میں اسرائیلی حاکمیت کی مخصوص حدوں یا نزاعی سرحدوں کے حل سمیت حتمی حیثیت کے تنازعات کے بارے میں کوئی موقف اختیار نہیں کر رہا۔ اِن سوالات کا تعلق متعلقہ فریقین کی صوابدید پر ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ” میرا تمام فریقین سے یہ کہنا ہے کہ وہ بیت المقدس سمیت جو حرم الشریف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یروشلم کے مقدس مقامات کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھیں۔”
آگے کیا ہوگا؟
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے کے لیے ماہرین تعمیرات، انجنیئروں، اور منصوبہ سازوں کو بھرتی کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
یروشلم میں نیا سفارت خانہ کب کھلے گا؟
کسی نئے سفارت خانے کی تعمیر میں بالعموم کم از کم تین یا چار سال لگ جاتے ہیں۔ ٹِلرسن نے بتایا، “ہمیں جگہ حاصل کرنا ہے۔ ہمیں عمارت کا نقشہ تیار کرنا ہے۔ ہمیں عمارت تعمیر کرنا ہے۔ لہذا یہ کوئی ایسا کام نہیں جو راتوں رات ہو جائے گا۔”