اپنے گھر کے سامنے والے برآمدے میں بیٹھے بشپ برنارڈ کابامبا نے بتایا کہ جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے شہر گوما میں ایبولا کا پہلا مریض یہیں سامنے آیا تھا۔ اُن کے ذہن میں وہ منظر آ رہا تھا جب پادری کوبیا بیمار حالت میں اپنے گھر کے گیٹ پر مدد کے لیے پکارتے دکھائی دیئے۔
بشپ برنارڈ نے ان کا خیرمقدم کیا اور اپنے چرچ کے موٹرسائیکل ڈرائیور میشوک بیائی چیہانزا کو بلایا اور بیمار پادری کو قریب ترین طبی مرکز میں لے جانے کو کہا۔
اس وقت ان لوگوں کو یہ علم نہیں تھا کہ پاسٹر کوبیا وہاں سے 320 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقعہ شہر بینی میں تبلیغ کی غرض سے موجود تھے جہاں انہوں نے اپنے بھائی کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی جس کا جو چند روز پہلے ایبولا کے سبب فوت ہوا تھا۔
جمہوریہ کانگو میں 2018 کے وسط میں ایبولا کا بحران شروع ہونے کے بعد ملک کے مشرقی حصے میں 3,300 افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے اور 2,200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب اسے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی وبائی بیماری سمجھا جاتا ہے اور اس کا پھیلاؤ روکنا طبی حکام اور عالمی برادری کی اولین ترجیح ہے۔

تلاش
جمہوریہ کانگو کی وزارت مواصلات کے ایک افسر جوناتھن مونگیلو اس وقت ڈیوٹی پر تھے جب یہ انتباہ جاری ہوا کہ گوما میں ایبولا کا ایک مصدقہ مریض موجود ہے۔ کسی بڑے شہر میں اس بیماری کا سامنے آنے والا یہ پہلا کیس تھا۔ شمالی کیوو کا دارالحکومت گوما، روانڈا کی سرحد سے متصل ہے جہاں مختلف علاقوں سے سفر کرنے والے 20لاکھ سے زیادہ گزرتے ہیں۔ حکام جانتے تھے کہ کارروائی نہ کی گئی تو بیماری تیزی سے پھیلے گی۔
مونگیلو کو ہر اس فرد کی تلاش کا کام سونپا گیا جو پادری کوبیا سے مل چکا تھا اور انہیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھی کہ وہ بیماری سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگوائیں۔ مونگیلو نے ہسپتال کے عملے سے بات کر کے اپنا کام شروع کیا اور پھر اپنے راوبط کے ذریعے میشوک اور بشپ برنارڈ کو ڈھونڈ نکالا۔
انہوں نے میشوک اور بشپ برنارڈ پر واضح کیا کہ وہ ایبولا وائرس کے خطرے کی زد میں ہیں اور انہیں اپنے تمام اہل خانہ سمیت حفاظتی ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے۔
یہ دونوں شخص متذبذب اور خوفزدہ تھے۔ میشوک کی بیوی شینٹل کے حاملہ ہونے کے سبب معاملہ مزید خراب ہوتا دکھائی دینے لگا۔
شینٹل بتاتی ہیں ”میں بے حد خوفزدہ تھی۔ میں نے سن رکھا تھا کہ حاملہ عورت کو ویکسین نہیں لگوانی چاہیے کیونکہ اس سے بچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کی افزائش متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم مجھے ایبولا سے بھی بے حد
خوف آتا تھا۔”

خوش قسمتی سے مونگیلو نے (جو خود بھی پادری ہیں) کچھ ہی عرصہ پہلے ورلڈ وژن کا پروگرام ”امید کے وسیلے” مکمل کیا تھا۔ اس پروگرام کو یوایس ایڈ سے مالی معاونت ملتی ہے۔ یہ پروگرام کانگو میں عیسائیوں، مسلمانوں، کیتھولک، ایڈونٹسٹ اور چرچ آف کرائسٹ سمیت بہت سے عقائد سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں کو ایبولا کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ اس بیماری کے بارے میں پھیلی غلط معلومات کا توڑ نکالا جا سکے۔
مونگیلو نے بتایا، ”مقامی علاقے کے رہنما کی حیثیت سے آپ کو تیار رہنا چاہیے۔ ورلڈ وژن کی جانب سے دی گئی تربیت کی بدولت میں نے یہ سیکھا کہ دوسروں کو مزید موثر طور سے کیسے سنا جائے اور ان کی اپنے خدشات اور جذبات سے نمٹنے میں کیسے مدد دی جائے۔”
”امید کے وسیلے” پروگرام کی بدولت مذہبی رہنماؤں نے یہ سیکھا کہ وائرس کیسے پھیلتا ہے اور کیسے وہ اپنے لوگوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اس پیغام رسانی کو اپنے خطبات، مذہبی تعلیمات اور روزمرہ کاموں میں شامل کرنے کے طریقے تلاش کریں تاکہ اپنے مذہبی اجتماع اور لوگوں کو آگاہی دے سکیں۔ اب تک اس پروگرام کے ذریعے قریباً 900 مذہبی رہنماؤں اور مقامی سطح پر اثر و نفوذ رکھنے والے افراد کو تربیت دی جا چکی ہے۔
زندہ وجاوید ثبوت
مونگیلو کی جانب سے بشپ برنارڈ، موٹرسائیکل ڈرائیور میشوک اور ان کے اہلخانہ کو ویکسین لگوانے پر قائل کرنے کے باوجود ان لوگوں کی آزمائش ختم نہ ہوئی۔ ایبولا کی علامات ظاہر ہونے میں 21 دن لگ سکتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے یہ انتظار انتہائی اذیت ناک تھا۔
برنارڈ کی بیوی کیرولائن اوکاوو نے بتایا، ”یہ ہمارے لیے آسان نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم مر جائیں گے۔”

تاہم یہ لوگ ایبولا سے بچنے میں کامیاب رہے اور گوما میں پادری کوبیا سے ملنے والے کسی بھی شخص کو یہ بیماری نہیں لگی۔ اب وہ اپنے اس تجربے کی داستان سے اپنا پیغام موثر طور سے دوسروں تک پہنچانے اور اپنے لوگوں کو آگاہ کرنے کا کام لیتے ہیں۔ بشپ نارڈ نے بتایا، ”اس کے بعد سب سے پہلے ہم نے اپنے چرچ کے لوگوں کو ویکسین لگوانے کا کہا۔ انہوں نے روحانی رہنماؤں کے طور پر ہماری بات سنی۔ آج ایبولا کے بارے میں ہمارے پاس کہنے کو کچھ ہے۔ ہمیں یہ تجربہ ہوا اور ہم اس میں زندہ بچ گئے۔ ہم ایک زندہ و جاوید ثبوت ہیں۔”
مفصل شکل میں یہ مضمون یو ایس ایڈ کے ہاں موجود ہے۔