
یورپی ممالک میں حزب اللہ سے لاحق خطرات کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور وہ ایرانی حمایت یافتہ اس دہشت گرد تنظیم کو پیسہ جمع کرنے یا اِن ممالک کی سرحدوں کے اندر دیگر کام کرنے سے روک رہے ہیں۔
امریکی وزیر خار مائیکل آر پومپیو نے حزب اللہ کے اراکین اور اِس سے منسلکہ افراد پر ایستونیا کی طرف سے 22 اکتوبر کو لگائی جانے والی پابندی کی تعریف کی ہے۔ ایستونیا اُن ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو اس دہشت گرد گروپ کے سیاسی اور عسکری شعبوں کی تفریق کو نہیں مانتے۔
پومپیو نے کہا، “ایستونیا کا فیصلہ کن اقدام اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ حزب اللہ مکمل طور پر ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اس سے یورپ اور دوسری جگہوں پر سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ہم تمام ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ حزب اللہ کے کارندوں، بھرتی کرنے والوں، اور مالی مدد کرنے والوں کو اپنے ممالک میں کام کرنے سے روکنے کے لیے جو کاروائی وہ کر سکتے ہیں، وہ کریں۔”
امریکہ نے 1997ء میں حزب اللہ کو ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا جس کے نتیجے میں اس گروپ کی مادی مدد ایک جرم قرار پائی اور امریکی مالیاتی اداروں میں اس کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے۔
امریکی عہدیدار اس تنظیم کی مالی وسائل تک رسائی اور حملوں کی سازشوں کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور دوسرے ممالک کی ایسے ہی اقدامات کرنے میں حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
Estonia took an important step against the Iran-backed terrorist organization Hizballah by prohibiting their terrorists from entering Estonian territory. We urge our European partners to follow Estonia’s example and prevent Hizballah from operating in Europe.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) October 24, 2020
ایستونیا کی حزب اللہ سے منسلکہ افراد پر ملک میں داخلے پر 22 اکتوبر کی پابندیاں، لتھوینیا، جرمنی اور سربیا کے اسی طرح کے اقدامات کے بعد سامنے آئی ہیں۔
- لتھوینیا نے 13 اگست کو حزب اللہ سے منسلک کسی بھی فرد کے ملک میں داخلے پر 10 برس کی پابندی لگائی۔
- روز نامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق جرمنی نے 30 اپریل کو ملک کے اندر حزب اللہ کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی اور حزب اللہ کے عسکری شعبے کی ایک دہشت گرد گروپ کی حیثیت سے ماضی کی درجہ بندی کو مضبوط بنایا۔
- سربیا نے ستمبر میں اعلان کیا کہ وہ پوری حزب اللہ کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کرے گا۔
یہ سب حالیہ اقدامات حزب اللہ کی سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کے بارے میں دنیا بھر میں پائے جانے والے اتفاق رائے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اکتوبر میں گوئٹے مالا نے پوری حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کیا اور مغربی نصف کرے میں اس کی پیسہ جمع کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا۔
گزشتہ 18 ماہ میں ارجنٹینا، کولمبیا، ہنڈوراس، کوسوو اور برطانیہ نے بھی حزب اللہ کی دہشت گرد تنظیم کے طور پر یا تو نئی نامزدگیاں کی ہیں یا پہلے سے موجود نامزدگیوں کو وسعت دی ہے۔
اسی دوران، امریکہ حزب اللہ کے راہنماؤں اور اس کے ایرانی حکومت میں موجود حامیوں پر دباؤ ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ 22 اکتوبر کو امریکہ کے محکمہ خزانہ نے شورٰی کونسل کے اراکین کا انتخاب کرنے والی، حزب اللہ کی مرکزی کونسل کے دو اراکین پر پابندیاں عائد کیں۔ شورٰی کونسل دہشت گردی سمیت، حزب اللہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
“ریوارڈز فار جسٹس” [انعامات برائے انصاف] کے پروگرام کے تحت کی جانے والی حزب اللہ کی سرگرمیوں یا مالیات کو ختم کرنے میں مدد دینے والی معلومات کی فراہمی پر ایک کروڑ ڈالر کی مستقل پیشکش کے سلسلے میں، امریکہ کے محکمہ خارجہ نے 23 اکتوبر کو حزب اللہ کی مالی مدد کرنے والوں اور سہولت کاروں کی اپنی فہرست میں مزید تین ناموں کا اضافہ کیا۔
محمد قیصر حزب اللہ اور ایرانی حکومت کے درمیان رابطے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ محمد قاسم البزال حزب اللہ اور پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ کی قدس فورس، دونوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔ اور علی قیصر حزب اللہ سے جڑی نام و نہاد کمپنی، تعلقی گروپ کو چلاتے ہیں اور حزب اللہ کو سامان کی فراہمی میں رابطہ کاری کرتے ہیں۔
انعامات برائے انصاف کا پروگرام 1984ء میں شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت ایسے ایک سو لوگوں کو 150 ملین ڈالر سے زائد ادا کیے جا چکے ہیں جنہوں نے وہ معلومات فراہم کیں جن کے نتیجے میں یا تو دہشت گرد کاروائیاں کو روکا گیا یا دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔