
نیٹو اتحاد 4 اپریل کو اپنی چوہترویں سالگرہ منا رہا ہے۔ اس موقع پر یہ اتحاد 1949 میں اپنے قیام کے سے لے کر اب تک شاندار کامیابیوں کا ریکارڈ رکھنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
امریکہ کے ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز سٹاوریڈس نے 2009 سے لے کر 2013 تک یورپ کے سابق سپریم اتحادی کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ نیٹو کے “اپنے رکن ممالک کے خلاف حملے کو روکنے کے بے داغ ریکارڈ” کا حوالہ اس اتحاد کی عظیم ترین کامیابیوں میں سے ایک کامیابی کے طور پر دیتے ہیں۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نامی یہ اتحاد بہت حد تک دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کی طرف سے امن کو لاحق خطرات کے ردعمل کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔
آرٹیکل 5 اجتماعی دفاع کا عہدنامہ۔ آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ ایک اتحادی پر حملہ سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس وقت یہ اتحاد 30 ممالک پر مشتمل ہے۔ صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکہ آہنی عزم رکھتا ہے۔
صدیوں کی دشمنیوں کا خاتمہ
دو عالمی جنگوں سے پہلے یورپ میں براعظم کی سطح پر کم و بیش مسلسل دشمنیاں چلتی رہیں۔ اِن میں انگلستان اور فرانس کے درمیان فرانسیسی تخت کی جانشینی کی کوشش میں لڑی جانے والی سو سالہ جنگ (1337-1453)؛ بنیادی طور پر وسطی یورپ میں ہونے والی 30 سالہ جنگ (1618-1648)؛ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سات سالہ جنگ (1756-1763)؛ فرانس اور دوسری یورپی طاقتوں کے ایک بدلتے ہوئے گروپ کے درمیان نپولین کی جنگیں (1803-1815)؛ اور فرانس اور جرمنی کی جنگ (1870-1871) شامل ہیں۔ دو عالمی جنگوں نے (1914-1918 اور 1939-1945) براعظم میں ایسی تباہی مچائی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

سرد جنگ (1945-1991) کے دوران نیٹو چوکس رہا اور اِس اتحاد نے اُس خوفناک تباہی کو روکے رکھا جو تیسری عالمی جنگ کی صورت میں آ سکتی تھی۔ نیٹو نے براعظم یورپ کے بیشتر حصوں میں امن اور جمہوریت کو برقرار رکھنے اور پروان چڑہانے میں مدد کی اور یورپی اور ٹرانس اٹلانٹک تعاون کو فروغ دیا۔
بیسویں صدی کے اختتام پر یورپ کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سکیورٹی کے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نیٹو اتحاد نے بوسنیا اور ہرزیگوینا میں اپنا پہلا بڑا ردعمل دیا جس کے نتیجے میں اِس ملک میں 1992-1995 کی جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں نیٹو نے کوسوو کی جنگ میں ایک بار پھر اپنا ردعمل دیا۔
سٹاوریڈس کہتے ہیں کہ نیٹو کے اراکین، اتحاد کے تمام پہلوؤں اور اتحاد کی سکیورٹی میں عملی تعاون کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رکن ممالک “بحثیت مجموعی جمہوریت، آزادی، آزادی اظہار، اظہار رائے کی آزادی، صنفی مساوات اور نسلی برابری [جیسی] بنیادی اقدار میں بھی عملی تعاون کرتے ہیں۔”
‘حالات کے مطابق ڈھلنے والا ایک منفرد اتحاد’
امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز گولڈگائیر نیٹو کے امور کے ماہر ہیں۔ فن لینڈ اور سویڈن کے نیٹو اتحاد کی رکنیت کے جاری عمل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “یہ دونوں ممالک شمالی یورپ میں سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے میں مدد کریں گے۔ اُن کی “مسلمہ جمہوریتوں” کی حیثیت نیٹو کی فوجی اتحاد اور اقدار پر مبنی ادارے کی حیثیت سے خدمات کو یقینی بنائے گی۔
اکیسویں صدی میں نئے بحران پیدا ہوئے ہیں۔ روس نے یورپ میں نیٹو کے غیر رکن ممالک پر حملے کیے ہیں۔ روس نے 2008 میں جارجیا پر حملہ کیا۔ جبکہ یوکرین پر ابتدائی طور پر 2014 میں اور بعد میں 2022 میں بھرپور حملہ کیا۔
کمبرلی مارٹن برنارڈ کالج اور کولمبیا یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ “یوکرین پر روسی حملے نے بلاشبہ نیٹو کی بدستور اہمیت کو ثابت کر دیا ہے۔ پوتن نے نیٹو میں مقصد کا ایک نیا احساس اور اتحاد کی تجدید پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔”
مارٹن نے کہا کہ “یوکرین پر پوتن کے بلا اشتعال حملے کو نیٹو کی طاقت کے امتحان کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔” اُن کا کہنا ہے کہ اب تک یہ اتحاد اِس امتحان میں کامیاب رہا ہے “جس میں امریکہ فوری، تخلیقی اور باہمی تعاون پر مبنی ایسے رد عمل دینے میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جن کی بنیاد واشنگٹن کی اپنے نیٹو کے ساتھیوں کے ساتھ طویل اور پائیدار تعلقات پر ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “نیٹو ہمیشہ سے حالات کے مطابق ڈھلنے والا ایک منفرد اتحاد چلا آ رہا ہے اور یہ آج بھی ایسا ہی ہے۔ یہ اتحاد سکیورٹی کے تعاون میں شامل ہونے کے لیے دنیا کے دوسرے خطوں کی جمہوریتوں کے لیے روشنی کے ایک مینار کا کام دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب حال ہی میں [غیر رکن ممالک] نیوزی لینڈ، جاپان اور کوریا نے نیٹو کے 2022 کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ آمرانہ ممالک کا کوئی گروپ، نہ تو سرد جنگ کے دوران اور نہ ہی اب، مشترکہ مقصد کا ایسا احساس پیدا کرنے کے قریب پہنچ سکتا ہے جو نیٹو کے رکن ممالک میں پایا جاتا ہے۔”