امریکہ اور دنیا بھر کی یونیورسٹیاں بیرونی مداخلت اور چوری سے اپنی حساس تحقیقوں کو محفوظ رکھنے پر کام کر رہی ہیں۔
مثال کے طور پر کیلی فورنیا یونیورسٹی اپنے تمام محققین کو حساس معلومات کی حفاظت کرنے اورمفادات کے ٹکراؤ کی نشاندہی کرنے کے طریقوں کے بارے میں تربیت دیتی ہے۔ محققین کو غیرملکی حکومتوں کے ساتھ ظاہر نہ کیے جانے والے روابط اور ایسی سرگرمیوں کے بارے میں ہوشیار رہنا سکھایا جاتا ہے جن میں غیرملکی اثرونفوذ کی علامات پائی جاتی ہوں۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی کے 10 کیمپسوں، پانچ میڈیکل سنٹروں اور تین قومی تجربہ گاہوں پر مشتمل نظام کے چیف کمپلائنس (تعمیلی) افسر، الیگزینڈر بسٹامینٹے نے بتایا، “ہم اِن مسائل اور اپنی تحقیق اور کام کا تحفظ کرنے میں پوری سنجیدگی سے کام لیتے ہیں۔”
پورے امریکہ کی یونیورسٹیاں کئی ایک محاذوں پر اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ اِن اقدامات میں قانون کے نفاذ اور محققین کی تربیت سے لے کر ایسے غیرملکی تحائف اور مالی امدادیں بھی شامل ہیں جو خطرے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اِن اقدامات کی بنیاد امریکی یونیورسٹیوں کی ایسوسی ایشن اور ایسی سرکاری اور لینڈ گرانٹ یونیورسٹیوں کے بہترین طریقوں پر ہے جو امریکہ، کینیڈآ اور میکسیکو کے اعلی تعلیم کے شاندار اداروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ آسٹریلین یونیورسٹیوں کی غیرملکی مداخلت سے نمٹنے کے لیے قائم کی جانے والی ٹاسک فورس کے مطابق آسٹریلیا میں بھی اسی قسم کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
حساس تحقیق کی حفاظت کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔ کھلے پن، شفافیت اور بین الاقوامی تعاون جیسی علمی اقدار یونیورسٹیوں کی کامیابیوں کا لازمی حصہ ہیں۔ تاہم، انہی اقدار کو چوری کرکے یا تحقیق کا غلط استعمال کرکے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
پریشانی کیا ہے؟
چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) “فوجی اور سویلین آمیزے” کی تزویراتی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے سویلین استعمال کے بہانے حاصل کی جانے والی تحقیق اور ٹکنالوجی کو فوجی تحقیق اور ترقی کے مقاصد کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
فروری میں وزیر خارجہ مائِیکل آر پومپیو نے کہا کہ امریکہ کا “نظام بڑا کھلا نظام ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس پر ہمیں ناز ہے۔ “گو کہ ایسے شعبے موجود ہیں جن میں امریکہ اور چین تعاون کر سکتے ہیں تاہم “ہم پر سبقت لے جانے کے لیے ہماری آزادیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے” کے چینی حکومت کے فیصلے کو امریکہ نظرانداز نہیں کر سکتا۔
وزیر خارجہ پومپیو نے اُن کئی ایک طریقوں کا خاکہ پیش کیا جن کے تحت چینی کمیونسٹ پارٹی غیرقانونی یا غیراخلاقی طور پر تحقیق کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اِن میں سے چند ایک یہ ہیں:
- ٹیلنٹ (ذہانت کے) متعدد پروگراموں کے تحت، سائنسدانوں اور پروفیسروں کو اپنا علم چین منتقل کرنے کے لیے بھاری رقومات کی ادائیگی۔
- کلی طور پر یہ یقینی بناتے ہوئے کہ چینی فوج فوائد سمیٹے، سویلین تحقیقی پراجیکٹوں پر غیرملکی اداروں کے ساتھ تبادلوں کی تشکیل۔
- بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالب علموں پر اپنی یا اپنے ہم جماعتوں کی تحقیق کے بارے میں بیجنگ کو بتانے کے لیے دباؤ۔
بسٹامینٹے نے یہ بات زور دے کر کہی کہ “تحقیق کے لیے بین الاقوامی شراکتیں ضروری ہوتی ہیں اور ان کی ایک کثیر تعداد سے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔” مگر جہاں مسائل سامنے آتے ہیں اور کوئی چیز سامنے آتی ہے تو “ہم وہاں نظر رکھتے ہیں، اور ترجیحاتی بنیادوں پر تفتیش کرتے ہیں۔”