یوکرین کے قریبی پڑوسی ممالک ایسے میں یوکرین کی زرعی اجناس کو عالمی منڈیوں میں پہنچانے کی کوششیں تیز کر رہے ہیں جب روس یوکرین کی بندرگاہوں اور اناج ذخیرہ کرنے والے گوداموں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اقوام متحدہ کے اِس معاہدے سے روس کے نکل جانے کے بعد جس کے تحت تقریباً 33 ملین میٹرک ٹن یوکرین کی زرعی برآمدات بحیرہ اسود کے راستے بھجوائیں جا چکی ہیں، رومانیہ اور مالدووا کی حکومتوں نے یوکرین کو اپنے اناج اور کھانے پینے کی اشیاء برآمد کرنے کے لیے متبادل راستوں کی پیشکش کی۔
رومانیہ کے وزیراعظم، مارسیل چولوکو نے 18 اگست کو کہا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ یوکرین کے اناج کی برآمدات کی مجموعی مقدار کا 60 فیصد براستہ رومانیہ بھیجا جا سکے گا۔”

چولوکو نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ یوکرینی زرعی اجناس یوکرین سے بھجوانے کے لیے رومانیہ ریل، سڑک، دریاؤں اور سمندری نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ سرحدوں کے آرپار آمد و رفت کو بھی آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مالدووا میں بھی انہی خطوط پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مالدووا کی صدر، مایا سیندو نے کہا کہ اُن کا ملک یوکرین، رومانیہ اور یورپی کمیشن کے ساتھ ان امور پر بات چیت کر رہا ہے کہ “مولدووا کے کسانوں کے مفادات کو [اِن کوششوں] میں کیسے شامل کیا جائے اور یوکرین سے آنے والے اناج کی ترسیل کو کیسے یقینی بنایا جائے۔”
اگست کے اوائل میں یوکرین، رومانیہ، مالدووا، امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندوں نے یوکرینی اناج کی برآمدات کو تیز سے تیز تر کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے کے لیے رومانیہ میں ملاقاتیں کیں۔
روسی حملے جاری
یوکرین کی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ جب سے روس نے اقوام متحدہ کے اناج کے معاہدے میں اپنی شرکت کو ختم کیا ہے اُس کے بعد بندرگاہوں پر روس کی طرف سے کیے جانے والے حملوں سے 270,000 میٹرک ٹن سے زیادہ اناج تباہ ہوا ہے۔
ایک حالیہ حملے میں مصر اور رومانیہ کے عوام کے لیے بھیجے جانے والے تیرہ ہزار میٹرک ٹن یوکرینی اناج کو نشانہ بنایا گیا۔

پوپ فرانسس سمیت عالمی راہنماؤں نے روس سے بحیرہ اسود کے اناج کے اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا کہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گتیرس نے اس معاہدے کو “خوراک کی عالمی سلامتی کی روح رواں اور شورش زدہ دنیا کے لیے امید کی ایک کرن قرار دیا ہے۔”
جولائی 2022 میں اقوام متحدہ اور ترکیہ کی ثالثی سے طے پانے والے اس معاہدے کے تحت دنیا بھر میں اناج پہنچایا گیا جس میں سے لگ بھگ 19 ملین میٹرک ٹن اناج ترقی پذیر ممالک کو فراہم کیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت اناج کی شدید ترین قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں بھی اناج پہنچایا گیا جن میں یمن، ایتھوپیا، صومالیہ اور افغانستان شامل ہیں۔
اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوا۔ چین کو 8 ملین میٹرک ٹن زرعی اجناس برآمد کی گئیں۔ یوکرینی اناج وصول کرنے والے دیگر ممالک میں مصر، بھارت، انڈونیشیا، کینیا اور تیونس شامل ہیں۔
اگرچہ زرعی اجناس کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے میں ریل، سڑک اور دریائی متبادل راستوں سے کی جانے والیں یوکرینی اناج کی برآمدات کی بہت زیادہ اہمیت ہے تاہم یوکرین کی گہرے پانی کی بندرگاہیں نہ صرف موثر ترین ہوتی ہیں بلکہ یہاں سے اناج بھجوانے میں سب سے کم لاگت بھی آتی ہے۔

خوراک کے بحیرہ اسود کے اس معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کو بھی یوکرینی اجناس فراہم کی گئیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ادارہ بھوک کے خلاف جنگ میں برسرپیکار دنیا کی سب سے بڑی انسانی تنظیم ہے۔
روس نے خوراک کی عالمی ضروریات کو پورا کرنے کی بجائے دنیا بھر کو فراہم کی جانے والیں زرعی اجناس پر حملے جاری رکھنے کے متبادل کو اپنا رکھا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “ایک طرف یوکرین دنیا کو اپنی قوت برداشت سے متاثر کر رہا ہے اور دوسرے طرف روس دنیا کو بھوکوں سے مار رہا ہے۔”