
یوکرین کے عوام 500 دنوں سے روس کی ننگی جارحیت کی وجہ سے زخمی ہونے اور موت کے کے خطرات کا سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں۔
روس نے شہروں اور قصبوں کے انتہائی اہم بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے گھروں، سکولوں، ہسپتالوں اور شاپنگ مالوں پر وحشیانہ حملے کیے ہیں۔
یوکرین پر روس کے 24 فروری 2022 کے حملے کے پانچ سوویں دن کے موقع پر 8 جولائی کو امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “ایسے میں بھی یوکرین کے لوگوں کے حوصلے نہیں ٹوٹے جب کریملن یوکرین کو زیر کرنے، اس کی سرزمین پر قبضہ کرنے، اس کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرانے کی کوششیں کر رہا ہے۔”
اتحاد پیدا کرنا
عالمی مدد سے یوکرین کے لوگ اپنے ملک کے دفاع اور تعمیر نو کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کریملن کی مخالفت میں گزار رہے ہیں۔ وہ آزادی سے زندہ رہنے کے لیے عزم صمیم اور شان کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ “ہر روز یوکرین کے لوگ ماسکو کے لگاتار حملوں کو برداشت کرنے میں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے میں سخت جانی سے کام لیتے ہوئے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔”
ذیل میں روس کی جارحیت کے خلاف یوکرینی عوام کی مزاحمت کی قابل ذکر کہانیوں کی چند ایک مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:-
بجلی کے گرڈ کی مرمت

جنگ نے یوکرین کے بجلی کے ورکروں سمیت عام شہریوں کو ہیرو بنا دیا ہے۔ گو کہ روس کی افواج کے فروری 2022 کے بھرپور حملوں کے دوران یوکرین کے بجلی کے نظام کونقصان تو پہنچا، مگر موسم سرما کے اختتام پر بجلی کے ورکروں کی کوششوں کی وجہ سے اس نقصان کے باوجود بجلی کا یہ نظام کسی حد تک محفوظ رہا۔
وینیتسیا سٹی کی ہیٹنگ انرجی کی سرمایہ کاری کی ڈپٹی ڈائریکٹر، تتیانا بیلیبیوک نے اس سال کے شروع میں بتایا کہ “[بجلی کے ورکر] یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب تک [ہم نے] جس چیز کا سامنا کیا ہے اُس نے ہمیں مضبوط اور پہلے سے زیادہ طاقتور بنایا ہے۔”
بین الاقوامی برادری نے یوکرین کی بحالی کے لیے اربوں کے وعدے کیے ہیں جن میں یوکرین کے بجلی کے نظام کی مرمت اور اس کے اہم ترین بنیادی ڈہانچوں کو جدید بنانے کے کام بھی شامل ہیں۔
سڑکوں اور بنیادی ڈھانچوں کی مرمت
کئی مقامات پر یوکرین کے ورکر اُن پلوں، سڑکوں اور سرکاری عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کر چکے ہیں دیا ہے جنہیں روس نے اپنے میزائلوں اور ڈرونوں کا نشانہ بنایا تھا۔
یوکرین کی بنیادی ڈہانچے کی نائب وزیر اولیگزینڈرا آذرخینا نے روزنامہ گارڈین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “کیا ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے دوبارہ بنایا ہے وہ پھر تباہ ہو سکتا ہے؟ ہاں، لیکن یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے ہم لینے پر مجبور ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ “کھل کر بات کی جائے تو تعمیر نو بھی ہماری مزاحمت کا ایک حصہ ہے۔”
زخمیوں کی دیکھ بھال

روس نے یوکرین کے سینکڑوں ہسپتالوں پر بمباری کی۔ بہت سے مقامات پر طبی عملے نے روس کے فوجی حملوں سے پہنچنے والے شدید نقصانات کے باوجود مریضوں کا علاج جاری رکھا۔
یوری کزنیتسوو، اِزیوم شہر میں شدید زخمی لوگوں کی سرجری کرتے ہیں۔ وہ ہسپتال کے تہہ خانے میں رہتے ہیں اور وہیں سرجری کرتے ہیں۔
انہوں نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ “ہم سب وقتاً فوقتاً بہت افسردہ ہو جاتے تھے۔ ہر بچائے گئے شخص کے بعد، ہر بچائی گئی زندگی کے بعد یہاں پر رہنے [یعنی درست کام کرنے] پر ہمارا اعتماد بڑھ جاتا تھا۔ … ہمیں یقین آ جاتا تھا کہ یہ فیصلہ قطعاً، غلط نہیں تھا۔”
کھیتوں میں ہل چلانا

امریکی حکومت نے یوکرین کے 12,700 کسانوں کو اپنے کھیتوں میں فصلیں بیجنے اور روس کی بمباری سے مچنے والی تباہی سے نکلنے میں مدد کے طور ہنگامی بنیادوں پر امداد دی ہے۔ انہی میں سے ایک ایہور خابشیک بھی ہیں۔
روس نے بحیرہ اسود سے بحری جہازوں کے نکلنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس صورت حال میں ترکیہ اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت یوکرین کے کسانوں کو دنیا میں اپنا اناج پہنچانے میں مدد مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کے تحت گزشتہ جولائی کے مہینے میں تقریباً 32 ملین میٹرک ٹن یوکرینی اجناس بحفاظت یوکرین سے باہر بھجوائیں گئیں۔
عارضی کلاس روموں میں تعلیم

اولگزینڈر پوگورلیف کا شمار اُن بہت سے اساتذہ میں ہوتا ہے جو کلاس روموں میں پڑھایا کرتے تھے۔ ہزاروں دیگر سکولوں کی طرح روس کی فوج نے اِن کے سکول کو بھی تباہ کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ درجن بھر طالبعلم ڈونیٹسک کے علاقے میں واقع اِن کے گھر آئے۔ انہوں نے یورونیوز کو بتایا کہ “ڈاکٹر کو مریضوں کا علاج کرنا ہوتا ہے اور استاد کو بچوں کو پڑھانا ہوتا ہے۔
روس کی جنگ نے یوکرین کے بہت سے طلبا و طالدبات کو شیلٹروں یا دیگر عارضی کلاس روموں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کی ایک مثال پوگورلیف کا گھر ہے۔ لیکن بہت سے طالبعلم کلاس روموں میں واپس آگئے ہیں۔ یونیسیف کی گرانٹ سے ویلکی موسٹی کے ایک ثانوی سکول میں انٹرنیٹ اور بجلی کی فراہمی میں مدد ملی ہے۔ سکول کی سربرابرہ ایرینا پاہوشک نے کہا کہ “اب ہم کام کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔”
ڈاک پہنچانا

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد یوکرین کا محکمہ ڈاک اور نجی کوریئر کمپنیاں ڈاک پہنچانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خطوط پہنچانے کے علاوہ ڈاکیے لوگوں تک پنشن، سودا سلف اور حتٰی کہ دوائیاں بھی پہنچاتے ہیں۔ 53 سالہ لڈمیلا پنچینکو نے بتایا کہ “اب بھی لوگ یہاں رہ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں کام جاری رکھنا ہوگا۔
رضاکارانہ مدد کے لیے تیار

جنگ کے آغاز سے نوجوان اور بوڑھے لوگ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے اور محاذوں پر ملک کا دفاع کرنے والے فوجیوں کی اپنے حصے کی مدد کرنے کے طریقے ڈھونڈتے چلے آ رہے ہیں۔
جنگ سے پہلے اولینا گریکووا جدید فیشن کے ملبوسات ڈیزائن کیا کرتی تھیں۔ جنگ کے بعد انہوں نے زاپوریژیا میں دیگر رضاکاروں کے ساتھ مل کر یوکرینی فوجیوں کے لیے حفاظتی جیکٹیں بنانا شروع کر دیں۔ گریکووا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ “میں محسوس کرتی ہوں کہ میری ضرورت یہاں پر ہے۔”
تتیانا بوریا نووا جنگ سے پہلے نوجوانوں کے لیے پارٹیوں اور سیاحتی دوروں کا بندوبست کیا کرتی تھیں۔ اب وہ ریپیئر ٹوگیدر نامی ایک گروپ کی مدد کر رہی ہیں۔ یہ رضاکاروں کا ایک گروپ ہے جس میں شامل لوگ چھوٹے شہروں میں جا کر روس کی بمباری سے ہونے والے نقصانات کے بعد صفائی اور مرمت کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے روزنامہ گارڈین کو بتایا کہ “ہم ایک نیا یوکرین بنا رہے ہیں۔”