یوکرینی نژاد امریکیوں کی یوکرین کی حمایت

یوکرینی نژاد امریکی اپنے آبائی وطن میں خاندان اور دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک اور روسی حملے کے خطرات کی وجہ سے پریشان ہیں۔

امریکہ کی یوکرینی کانگریس کمیٹی، ایلانائے ڈویژن کے صدر ایہور ڈایا ایکزن نے دسمبر میں شکاگو میں ہونے والی ایک ریلی میں کہا، “ہم یوکرین کے ساتھ  روس کی ایک خودمختار ملک کے خلاف جارحیت کی وجہ سے کھڑے ہیں۔ ہماری ریلی روس کے جھوٹ اور غلط معلومات کو مسترد کرتی ہے۔”

امریکہ بھر میں رہنے والے یوکرینی نژاد امریکی بھی ان جذبات میں شریک ہیں۔ وہ یوکرین کی سرحدوں پر روسی فوجوں مں اضافے  کی مخالفت کر رہے ہیں اور ایک پرامن حل کے لیے دعاگو ہیں۔

  ڈیٹرائٹ

میٹروپولیٹن ڈیٹرائٹ کی یوکرینی امریکن سوک کمیٹی کی رکن، میری زائیکی نے کہا کہ وہ اور وہاں کے دیگر مقامی یوکریئنی باشندے “یوکرینی عوام کے اپنی سرزمین میں آزاد اور امن سے رہنے کے حق” کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔”

انہوں نے میکومب ڈیلی کو بتایا، “ہم مستقل بے چینی اور خوف کا خاتمہ چاہتے ہیں۔”

اولینا ڈینیلیک بھی اس کمیٹی کی رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یوکرین نے اپنی معیشت کی تعمیر کی اور 1991 میں سابق سوویت یونین سے آزادی کے لیے ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی زبان اور ثقافت کو روس کے مقابلے میں ایک مختلف طریقے سے بحال کیا۔

انہوں نے کہا کہ [متعلقہ] ممالک کو 1994 کے بڈاپسٹ میمورنڈم میں دی گئیں سلامتی کی یقین دہانیوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بڈاپسٹ میمورنڈم کے تحت ہی یوکرین، بیلاروس اور قازقستان کو اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے بدلے میں آزادی دی گئی تھی۔

یوکرین کے شہر لویو کی رہنے والی ڈینیلیک نے کہا، “[روسی صدر ولادیمیر] پیوٹن اب بھی سوویت یونین کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ یوکرین اس خیال کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔”

فلا ڈیلفیا

 سنہرے گنبد والے چرچ کے باہر قطار میں کھڑے لمبے چوغوں والے مذہبی رہنما (© Matt Rourke/AP Images)
مذہبی راہنما ایک تقریب کے لیے 2019 میں فلاڈیلفیا میں واقع دا ایممکیولیٹ کونسپشن کے یوکرینی کیتھولک چرچ میں داخل ہو رہے ہیں۔ (© Matt Rourke/AP Images)

پنسلوانیا میں یوکرین کی اعزازی قونصل، ایرینا مزور نے 6ABC.com کو بتایا، “کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہلاکتیں ہوں۔”

ان کے خاندان کے افراد پولینڈ کے قریب مغربی یوکرین میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “میرے والدین نسبتاً محفوظ ہیں، لیکن وہ خوفزدہ ہیں۔”

دیگر یوکرینی نژاد امریکی مسلسل روسی جارحیت کے نتائج کے بارے میں متنبہ کر رہے ہیں۔ امریکہ کی یوکرینی کانگریس کمیٹی کی فلاڈیلفیا برانچ کے صدر یوجین لوسیف نے کہا، “اگر پیوٹن سرحد عبور کرتے ہیں تو آپ وسیع پیمانے پر انسانی تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔”

لوسیف کے والدین دوسری عالمی جنگ کے دوران یوکرین سے مہاجرین کے طور پر فرار ہوئے۔ وہ روس کے موجودہ خطرات کو 2014 کے روسی حملے کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انہوں نے6ABC.com کو بتایا، “آٹھ سال سے وہ [یوکرینی عوام] اس پریشانی مبتلا ہیں کہ اُن کے ساتھ آگے کیا ہونے جا رہا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ پیوٹن کے نشانے پر ہیں۔”

ہڈسن ویلی، نیویارک

 ایک ریلی کے دوران کتبے اور پرچم اٹھائے لوگ شہر کے ایک چوک میں جمع ہیں (© Lev Radin/Pacific Press/LightRocket/Getty Images)
22 جنوری کو نیویارک کے یونین سکوائر میں ایک ریلی کے دوران مظاہرین یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ (© Lev Radin/Pacific Press/LightRocket/Getty Images)

اینا شیپکو نے کہا کہ ریاست نیویارک کے کیٹس کِل پہاڑ، جہاں وہ رہتی ہیں اُنہیں اور دیگر یوکرینی تارکین وطن کو اُن کے وطن کی یاد دلاتے ہیں۔ ہر ہفتے وہ چرچ جاتی ہیں جہاں انگریزی اور یوکرینی زبانوں میں عبادت کی جاتی ہے۔

انہوں نے ہڈسن ویلی سپیکٹرم نیوز 1کو بتایا، “یوکرینی اس کے مستحق نہیں کہ ان پر ہمیشہ جبر کیا جائے۔”

شیپکو نے کہا کہ اُنہیں امید ہے کہ اتحادی اقوام یوکرین کے مدد کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، “جو کچھ بھی ممکن ہو بہرصورت  اُنہیں وہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ [معاملہ] خود بخود نہیں رکے گا۔”

حملے کا خطرہ یوکرینی نژاد امریکیوں کے ذہنوں میں بسا رہتا ہے۔ پیٹر فِل یوکرینی-امریکی ثقافتی مرکز کے کے فرسٹ چیئرمین اور ہڈسن ویلی کمیونٹی کالج میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ٹائمز یونین کو بتایا، “یوکرینی کمیونٹی میں ہر کوئی اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ یہ باقی دنیا کے لیے ایک سنجیدہ [مسئلہ] ہے۔”

پِٹس برگ

پنسلوانیا کے میک کیز راکس میں سینٹ میری یوکرین آرتھوڈوکس چرچ کے پادری، محترم ٹموتھی ٹامسن نے ٹریبیون-ریویو کو بتایا، “ہمیں امن کے لیے دعا کرنے کی ضرورت ہے۔”  ٹامسن کی بیوی اور دادا دادی کا تعلق یوکرین سے ہے۔

یوکرین کے بھرپور قدرتی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے ٹامسن نے کہا کہ ایک پرانی کہاوت ہے: “یوکرین کے بغیر روس صرف ایک ملک ہے۔ یوکرین کے ساتھ روس ایک سلطنت ہے۔”

مونیسن، پنسلوانیا کی ہیلن گوزنسکی نے ٹریبیون ریویو کو بتایا کہ ان کے والد، ایلک فال ایک آزاد زندگی گزارنے اور سٹیل مل میں کام کرنے کے لیے امریکہ آئے تھے۔ گوزینسکی کے والد نے انہیں [ہیلین] اور ان کے بھائی کو یوکرینی زبان سکھائی۔

مونیسن میں سینٹ نکولس یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ کی سکریٹری، گوزینسکی نے کہا، “اگر وہ آج زندہ ہوتے تو وہ شدید مایوسی کا شکار ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ روس جو کچھ کر رہا ہے وہ “خوفناک” ہے۔

آرنلڈ، پنسلوانیا میں سینٹ ولادیمیر یوکرین کیتھولک چرچ کے پادری، محترم یاروسلاو کوول 10 سال قبل یوکرین سے امریکہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کے نوجوان بیرونی مداخلت سے پاک ایک آزاد ملک میں رہ چکے ہیں اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، “وہ روس میں نہیں بلکہ ایک آزاد یوکرین میں رہنے کی عظیم خواہش رکھتے ہیں۔”