امریکہ، یورپی یونین اور یوکرین کے پرچموں کا ایک تصویری خاکہ۔ (© helloRuby/Shutterstock.com)
(© helloRuby/Shutterstock.com)

اگرچہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی اس تنازع کے پرامن حل پر زور دے رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 5 جنوری کو کہا، “”صدر بائیڈن نے صدر پیوٹن پر یہ بات قطعی طور پر واضح کر دی ہے کہ جب بھی یورپی سلامتی سے متعلق سوالات کے بارے میں کوئی بات ہوگی تو یورپ کے بغیر یورپ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ اس میں محض مکمل رابطہ کاری، مکمل مشاورت ہی نہیں بلکہ  شرکت کی بات بھی ہوگی۔”

امریکہ یوکرین کی خودمختاری اور بین الاقوامی تعلقات کے اُن اصولوں کے لیے پرعزم ہے جو پورے یورپ میں امن اور خوشحالی کو مضبوط بناتے ہیں۔

روس کے جھوٹے بیانیے کا توڑ

امریکہ یوکرین کی سرحدوں پر روس کے فوجیوں کی بڑھتی ہوئی تعیناتی اور یوکرین اور نیٹو کے خلاف روسی ریاست کے زیر کنٹرول میڈیا پر جھوٹی نشریات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ روس اِس “جھوٹے بیانیے” کو فروغ دے رہا ہے کہ یوکرین  اس تنازعے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، “اصل سوال یہ ہے کہ کیا روس سفارت کاری میں سنجیدہ ہے [اور] کشیدگی کم کرنے میں سنجیدہ ہے۔”

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دسمبر 2021 میں کہا کہ انتظامیہ ماسکو کی طرف سے اٹھائے جانے والے مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بائیڈن انتظامیہ کسی بھی ایسی پالیسی میں “آپ کے بغیر آپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں” کے اصول پر سختی سے کاربند ہے جو یورپی اتحادیوں اور شراکت کاروں کو متاثر کرتی ہے۔

یوکرین میں تنازعے کی ابتدا 2014 میں روس کی جانب سے جزیرہ نما کریمیا پر غیر قانونی قبضے اور مشرقی یوکرین میں بغاوت کے لیے نیابتی جنگ پر اکسانے سے ہوئی۔

امریکہ تنازعات کو ختم کرنے کے لیے منسک معاہدوں پر عمل درآمد کی حمایت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے توثیق شدہ ان معاہدوں میں تخفیف اسلحہ اور یوکرین سے روسی فوجیوں کے انخلاء کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق سال 2022 میں تنازعات کی وجہ سے 29 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہوگی۔ اس تنازعے کی وجہ سے تیرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 15 لاکھ اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

 پینٹنگ کے نیچے ڈائس کے پیچھے کھڑے بلنکن۔ (© Mandel Ngan/AP Images)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن 5 جنوری کو محکمہ خارجہ میں ایک اخباری کانفرنس میں۔ (© Mandel Ngan/AP Images)

گو کہ روس کا دعویٰ ہے کہ اسے یورپی سلامتی کے بارے میں خدشات لاحق ہیں تاہم بلنکن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ یہ روس ہی تھا جس نے جارجیا پر حملہ کیا، یوکرین پر حملہ کیا، مالدووا  کی رضامندی کے بغیر مالدووا میں اپنی فوجیں تعینات کیں، غیر ملکی سرزمین پر سیاسی مخالفین کو قتل کرنے کی کوشش کی اور تخفیف اسلحہ کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزیاں کیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ کسی ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی سرحدیں زبردستی تبدیل کرنے، کسی دوسرے ملک کی خارجہ پالیسی یا ہمسایہ ممالک تک اثر و رسوخ کا دائرہ بڑہانے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔

امریکہ اور نیٹو نے بحراوقیانوس کے آر پار بندھنوں کو مضبوط بنایا ہے اور [دونوں] یوکرین کی آزادی، علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے لیے اپنی حمایت میں ثابت قدم ہیں۔

بلنکن نے کہا کہ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری ہی بہترین طریقہ ہے۔ لیکن اگر روس نے یوکرین کی صورت حال کو کشیدہ بنایا تو نیٹو، یورپی یونین اور سات ممالک کے گروپ کے اراکین اتحادی روس کے خلاف سخت تعزیریں  عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا، “روس کو یوکرین کے خلاف نئے سرے سے جارحیت کے بھاری نتائج بھگتنا پڑیں گے۔”