یوکرین پر روس کی بمباری دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کی یاد دلاتی ہے

دو عورتوں کی تصاویر جنہوں نے بچے اٹھائے ہوئے ہیں (State Dept./M. Gregory)
(State Dept./M. Gregory. Photos: © Picture Post/Hulton Archive/Getty Images and © Evgeniy Maloletka/AP Images)

یوکرین کے بندرگاہ والے شہر ماریوپول پر روس کی مسلسل بمباری سے ایک اندازے کے مطابق دس ہزار  شہری ہلاک اور لاکھوں خوراک، پانی، بجلی اور رہائش سے محروم ہو چکے ہیں۔

ملبے کی وجہ سے شہر کے بہت سے رہائشی وہاں سے نکل نہیں سکتے اور نہ ہی امدادی تنظیمیں روس کی مسلسل گولہ باری کی وجہ سے محصور شہر میں داخل ہو سکتی ہیں۔ ماریوپول کی تقریباً 90 فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔

اینا نامی ایک رہائشی نے اپریل میں بی بی سی کو بتایا، “ماریوپول اب ایک قبرستان ہے۔ سب بستیاں شہریوں کی قبروں سے بھری پڑی ہیں۔”

روسی صدر ولاڈیمیر پوٹن نے کہا کہ بمباری کے خاتمے کے لیے ماریوپول کے رہائشیوں کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ یوکرین میں روس کی فوجی طاقت کی بربریت اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کی بربریت کے درمیان حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے۔

 ملبے کے بیچ میں لوگ ایک حاملہ خاتون کو سٹریچر پر ڈال کر لے جا رہے ہیں (© Evgeniy Maloletka/AP Images)
یوکرین کے ایمرجنسی ملازمین اور رضاکار ایک زخمی حاملہ خاتون کو زچگی کے اُس ہسپتال سے نکال کر لے جا رہے ہیں جسے یوکرین کے شہر ماریوپول پر 9 مارچ کی گولہ باری سے نقصان پہنچا تھا۔ بعد میں ماں اور بچہ دونوں مر گئے۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

پوٹن کے 24 فروری کے حملے کے بعد سے ماریوپول اور یوکرین کے دیگر شہروں کا محاصرہ اس مماثلت کی ایک مثال ہے۔ 80 سال سے زیادہ عرصہ قبل نازی جرمنی نے اسی طرح کے ایک محاصرے کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں روس میں لوگوں کو وسیع پیمانے پر مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کا جون 1941 میں لینن گراڈ پر حملہ، جسے اب سینٹ پیٹرزبرگ کہا جاتا ہے، تقریباً 900 دن تک جاری رہا اور اس میں تقریباً 10 لاکھ روسی ہلاک ہوئے۔ شہر چھوڑنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو سڑکوں پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شہر کے مکینوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کا ایک ماہ کا ذخیرہ تھا جس کے خاتمے کے بعد  لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے۔

لینن گراڈ کے محاصرے سے بچ جانے والوں میں سے جو لوگ آج زندہ ہیں ان میں سے کچھ یوکرین کے خلاف روس کی بلا اشتعال اور وحشیانہ جنگ پر وحشت کا اظہار کر رہے ہیں۔

87 سالہ مارگریٹا مورزووا لینن گراڈ کے محاصرے سے زندہ بچ جانے والے لوگوں میں شامل ہیں اور اب یوکرین میں رہتی ہیں۔ مورزووا نے 20 مارچ کو رائٹرز کو بتایا، “میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرے بڑھاپے میں ایک نئی جنگ شروع ہو جائے گی۔ میں اپنے بدترین خواب میں بھی یہ تصور نہیں کر سکتی تھی کہ اس طرح کا قتل عام  دہرایا جائے گا۔”

گزشتہ 60 برسوں سے وہ یوکرین کے شمال مشرق میں واقع دوسرے بڑے شہر، خارکیف میں رہ رہی ہیں۔ پوری جنگ کے دوران اس شہر پر بھی ماریوپول کی طرح شدید بمباری کی گئی ہے۔

 دو تباہ حال عمارتوں کی تصویریں (State Dept./M. Gregory)
(State Dept./M. Gregory)

83 سالہ ویرا سومینا نے اپنی پوری زندگی سینٹ پیٹرزبرگ میں گزاری۔ انہوں نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا، “میں ایک چھوٹے بچے کی حیثیت سے جنگ اور ناکہ بندی سے بچ نکلی تھی اور مجھے یقین تھا کہ ایسا کچھ دوبارہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔”

انہوں نے کہا، “میری نسل کو اس سے گزرنا پڑا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ میرے بچوں اور نواسوں کی نسلوں کے لیے بھی اسی طرح کی ہولناکی ممکن ہے۔”

تمام شواہد کے باوجود کریملن کا ریاستی کنٹرول والا میڈیا اس بات سے انکاری ہے کہ روس، یوکرین کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ میڈیا غلط معلومات پھیلانے کی بھی تردید کرتا ہے اور بمباری کا شکار ہونے والی ہسپتالوں کی عمارتوں جیسے مظالم کی تصاویر کو جعلی قرار دیتا  ہے۔