یوکرین کے لوگ اپنے ملک کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے دلیرانہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ شیئر امیریکا کی اس سیریز میں یوکرین کے اِس جذبے کی مثال پیش کرنے والے غیرمعمولی افراد کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔
اولیگزینڈرا ماتوائچک کے نزدیک یوکرین کی خودمختاری کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ انہوں نے اس کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ زندگی وقف کر دی ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ انسانی حقوق کی وکیل ہیں۔ اُن کا شمار اپنے ملک یوکرین کا دفاع کرنے والے دیگر بہت سے لوگوں میں ہوتا ہے۔
ماتوائچوک کیئف کی ‘سینٹر فار سول لبرٹیز’ نامی تنظیم کی سربراہ ہیں۔ اِس تنظیم کو “جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختیارات کے غلط استعمال کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے کے شاندار کام” پر 2022 کا مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔
اس تنظیم نے 2014 میں کرائمیا پر روسی افواج کے حملے کے بعد ہزاروں مبینہ جنگی جرائم کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا۔ فروری 2022 میں روس کے مکمل حملے کے بعد سے یہ تنظیم یوکرین میں ہونے والے مظالم کو دستاویزی شکل میں محفوظ رکھنے کی اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ماتوائچک نے کہا کہ “یہ جنگ دو ملکوں کے درمیان نہیں ہے، یہ جنگ دو نظاموں یعنی آمریت اور جمہوریت کے درمیان ہے ۔”
‘انسانی درد’ کو دستاویزی شکل دینا

گو کہ جنگ نے یوکرین کو نقصان پہنچایا۔ تاہم اس جنگ نے فعال کارکنوں کی ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے جس نے اپنے آپ کو کریملن کو اِس کے مظالم پر جوابدہ ٹھہرانے کے نصب العین کے لیے وقف کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے کا پختہ عزم بھی کر رکھا ہے۔ ماتوائچک نے دا اٹلانٹک رسالے کو بتایا کہ “یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کا میں خود سے کبھی بھی انتخاب نہ کرتی۔ میں نے اپنے بارے میں جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دینے کی کبھی توقع بھی نہیں کی تھی۔ اگر مجھے موقع ملتا تو میں ایسے مقدر سے بچنے کی کوشش کرتی۔ مگر ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں۔”
فروری کے حملے کے بعد ماتوائچک اور اُن کے ساتھی بوچا اور ارپین جیسے شہروں میں گئے جہاں انہیں گلیوں میں لاشیں پڑیں ملیں۔ انہوں نے زندہ بچ جانے والوں سے ملاقاتیں کیں۔ اپنی لگن کی وجہ سے ماتوائچک نے متاثرین کا اعتماد حاصل کیا۔
“جس انسانی درد کا ہم نے سامنا کیا ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔”
~ اولیگزینڈرا متوائچک
انہوں نے بتایا کہ “میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ہم محض جنیوا اور ہیگ کے کنونشنوں کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل نہیں دے رہے، ہم انسانی درد کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے بے مثال انسانی درد کا سامنا کیا ہے۔”
یہ سینٹر ماسکو کی تطہیری کارروائیوں کے سلسلے میں کریملن کی جانب سے یوکرینی شہریوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالے جانے کی بھی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ تنظیم اپنے نتائج بین الاقوامی اداروں کو بھیجتی ہے۔
مستقبل کے بارے میں سوچ
ماتوائچک نے 2013 میں ‘یوکرین کے انقلاب برائے وقار’ کے دوران پرامن مظاہرین کو قانونی امداد حاصل کرنے میں مدد کرکے لوگوں کی حمایت کا کام شروع کیا۔ انہوں نے “LetMyPeopleGo” [میرے لوگوں کو جانے دو] نامی مہم کے سلسلے میں روس اور بیلاروس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
یوکرین کے اندر وہ قانون سازی اور عدالتی اصلاحات کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط بنانے کی غرض سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر کام کرتی ہیں۔ وہ 2017-2018 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ ‘وزٹنگ سکالر کے طور پر منسلک رہیں۔
انہوں نے کہا کہ “کئی دہائیوں سے روس نے جنگ کو اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے حصول اور جنگی جرائم کو ان جنگوں کو جیتنے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جنگی جرائم کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنا اور اِن کا ارتکاب کرنے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ملک کی تعمیر نو کے لیے درکار ابتدائی اقدامات ہیں۔
ماتوائچک نے نے دا اٹلانٹک رسالے کو بتایا کہ “مجھے امید ہے کہ ہم غصے پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ جلد یا بدیر جنگ ختم ہو جائے گی اور ہمیں ایک مہذب دنیا کی تعمیر جاری رکھنا ہو گی۔”