
یوکرینیوں کو ایک ایسے دن بلااشتعال حملے کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا جشنِ آزادی منانا پڑ رہا ہے جو درحقیقت ان کی آزادیوں کی قدردانی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
یوکرین 24 اگست کو اپنا قومی آزادی کا دن منانے جا رہا ہے۔ اسی دن روس کے یوکرین پر بھرپور حملے کے چھ ماہ پورے ہو رہے ہیں اور یہ یوکرین کے لیے ایک بھیانک سنگ میل عبور کرنے کے مترادف ہے۔
1991 میں یوکرین نے سابق سوویت یونین سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ تین دہائیوں میں اس ملک نے ایسے جمہوری ادارے بنائے جو آزادانہ انتخابات، ایک متحرک سول سوسائٹی اور اقتدار کی پرامن منتقلی کو ممکن بناتے ہیں۔
کریملن یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ روسی صدر ولاڈیمیر پِیوٹن اور اعلٰی روسی حکام یہ دعویٰ کرتے ہوئے غلط معلومات پھیلا رہے ہیں کہ یوکرین روس کا حصہ ہے۔ ماسکو یوکرینی ثقافت کی تمام علامتوں کو مٹانا چاہتا ہے۔
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت 2014 میں اُس وقت شروع ہوئی جب اس نے کرائمیا پر حملہ کیا اور ڈونباس میں تنازعے کو ہوا دی جس کے بعد روس نے یوکرین کی شمالی اور مشرقی سرحدوں کے ساتھ اپنی فوج جمع کی اور موجودہ حملے کا آغاز کر دیا۔
ذیل میں گزشتہ چھ ماہ کی جنگ کی ایک جزوی ٹائم لائن دی جا رہی ہے:-
24 فروری
روس نے اپنے مکمل حملے کا آغاز زمینی، فضائی اور سمندری حملوں سے کیا۔ روس کے فوجی دستے کیئف، خارکیئف اور کھیرسن کی سمت میں بیلا روس سے یوکرین کے شمال میں داخلے سمیت یوکرین میں تین مقامات سے داخل ہوئے۔
امریکی حکومت نے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ہمراہ یوکرین کے خلاف پیوٹن کی پسند کی جنگ کے ردعمل میں اسی دن روس کو “سخت اور فوری اقتصادی قیمتیں چکانے” پر مجبور کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح کے اقدامات بیلاروس میں لوکاشینکا کی حکومت کے خلاف بھی اٹھائے گئے کیونکہ یہ حکومت اس جنگ میں روس کا ساتھ دے رہی ہے۔
صدر بائیڈن نے اُس دن کہا کہ “پیوٹن جارح ہے۔ پیوٹن نے اس جنگ کا انتخاب کیا ہے۔ اب اُنہیں اور اُن کے ملک کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔”

مارچ
یکم مارچ: روس کے فضائی حملوں سے بابین یار کے قریبی علاقے میں بھی نقصان ہوا۔ بابین یار وہ تاریخی مقام ہے جہاں نازیوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہولوکاسٹ کے ایک حصے کے طور پر ایک لاکھ یہودیوں اور دیگر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
2 مارچ: اقوام متحدہ میں رکن ممالک کی ایک بڑی اکثریت نے روسی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پیوٹن سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکہ نے اضافی اقدامات کا اعلان کیا جس میں بتایا گیا کہ 30 سے زائد ممالک روس پر پابندیاں لگانے اور برآمدی قدغنیں لگانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

4 مارچ: روس نے یوکرین میں ہونے والی جنگ کے ناقدین کو سزا دینے والے قانون کے ذریعے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کاروائیاں مزید تیز کر دیں۔ روس کے اندر میڈیا کے لیے لازم ہے کہ وہ یوکرین پر کیے جانے والے حملے کو “مخصوص فوجی آپریشن” کا نام دے۔

14 مارچ: ماریوپول میں زچگی کے ایک ہسپتال پر کیے جانے والے روسی حملے کے ایک ہفتے بعد، ایک زخمی حاملہ عورت [اوپر تصویر میں] اور اُس کا پیدا ہونے والا بچہ دونوں فوت ہوگئے۔ بہت زیادہ دیکھی جانے والی اس تصویر میں لوگوں کا ایک گروپ دکھائی دے رہا ہے جس میں شامل لوگ ایک عورت کو ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔ یہ تصویر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ روسی فوج کے حملوں سے کس طرح عام شہری ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں۔

مارچ 16: روس نے ماریوپول میں “ڈونیٹسک اکیڈمک ریجنل ڈرامہ تھیٹر” کی عمارت [اوپر تصویر] پر بمباری کی جس کے نتیجے میں تقریبا 600 افراد ہلاک ہوئے۔ اس عمارت کے باہر روسی زبان میں لفظ “بچے” بڑے بڑے حروف میں لکھا گیا تھا تاکہ اسے فضا سے آسانی سے پڑھا جا سکے اور یہ نشاندہی کی جا سکے کہ اس عمارت میں بچے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
24 مارچ: نیٹو کے سربراہی اجلاس اور سات ممالک کے گروپ کے یورپ میں ہونے والے اجلاس میں صدر بائیڈن اور نیٹو کے اتحادیوں نے یوکرین کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5 کے مقابلے میں 140 ووٹوں کی اکثریت سے ایک قرار منظور کی جس میں روس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ یوکرین کے شہروں کو تباہ کرنا بند کرے۔
اپریل

2 اور 3 اپریل: بوچا شہر میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور اجتماعی پھانسیوں کے مناظر نے دنیا کو خوف اور غصے میں مبتلا کر دیا۔ شہر کے میئر کا اندازہ ہے کہ روسی فوج نے اس شہر میں رہنے والے کم از کم 300 افراد کو ہلاک کیا۔ جمہوری ممالک نے اس کے ردعمل میں روس پر مزید پابندیاں لگائیں اور روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا۔
14 اپریل: یوکرین کے میزائل حملے سے روس کا بحر اسود کا “ماسکووا” نامی ایک بڑا جہاز ڈوب گیا۔
مئی

روسی فوج کی یوکرینی گھروں اور آبادیوں پر مسلسل بمباری سے مئی تک پچاس لاکھ افراد کو مجبوراً پڑوسی ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ اوپر تصویر میں دکھائے گئے لوگوں سمیت، لاکھوں لوگوں کو پولینڈ جیسے قریبی ممالک میں امید اور مدد ملی۔
19 مئی: یوکرین کی زراعت اور دنیا بھر کی غذائی سلامتی پر پڑنے والے پیوٹن کی جنگ کے اثرات کو غذائی عدم تحفظ اور جنگ کے بارے میں اقوامی متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اجاگر کیا گیا۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “لگتا ہے کہ روسی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے اسے وہ کچھ حاصل کرنے میں مدد ملے گی جو وہ اپنے حملے سے حاصل نہیں کر سکی یعنی یوکرینی عوام کے جذبے کو شکست دینا۔”

جون
16 جون: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر، مشیل بیچلیٹ نے ماریوپول کو ممکنہ طور پر “یوکرین کی مہلک ترین جگہ” قرار دیا۔ اُن کا یہ بیان “بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزیوں” کا پتہ دیتا ہے۔
23 جون: یورپی یونین نے یوکرین کی یورپی یونین کی رکنیت کی امیدواری کا اعلان کیا۔ یورپی یونین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس زرعی سہولتوں کو نشانہ بنا کر اور بحیرہ اسود کی بندرگاہ تک رسائی کو روک کر خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

27 جون: یوکرین کے وسطی شہر کریمینچک میں ایک شاپنگ مال پر روسی میزائل حملے میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
نیٹو کے تاریخی اجلاس کے دوران فن لینڈ اور سویڈن کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ تاریخ میں پہلی بار ایشیا کے جمہوری ممالک کے لیڈر اس اجلاس میں شامل ہوئے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ “ہم پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔”
جولائی
یکم جولائی: روسی افواج بحیرہ اسود کے “سنیک آئی لینڈ” [جزیرے] سے یوکرینی گولہ باری سے بچنے کے لیے پسپا ہوئیں جبکہ روس نے اپنی اِس پسپائی کو “خیر سگالی کا اقدام” قرار دیا۔

9 جولائی: خوراک کے عالمی پروگرام نے بتایا ہے کہ یوکرین کا ہر تین میں سے ایک شہری جنگ کی وجہ سے مطلوبہ مقدار میں خوراک حاصل نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے کیونکہ روسی افواج نے یوکرین کے منڈیوں میں بھیجنے کے لیے ٹنوں کے حساب سے تیار اناج کو روک رکھا ہے۔
13 جولائی: بلنکن نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک نظام کے تحت کی جانے والی اُن “تطہیری” کاروائیاں اور جبری بیدخلیاں فوری طور پر بند کرے جو وہ یوکرین کے روسی کنڑول اور مقبوضہ علاقوں میں کر رہا ہے۔
اگست

اگست کے پہلے ہفتے تک 6.4 ملین افراد یوکرین چھوڑ کر چکے ہیں اور پناہ گزینوں کی حیثیت سے زیادہ تر کو یورپ کے اردگرد کے ممالک میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کم از کم سات ملین لوگ اپنے گھربار چھوڑ کر جا چکے ہیں مگر وہ یوکرین میں ہی رہ رہے ہیں۔ اِن میں سے بیشتر پناہ گاہوں میں یا دوستوں اور خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
8 اگست: بلنکن نے کہا کہ “یوکرین پر بلا اشتعال اور وحشیانہ حملے کے تقریباً چھ ماہ ہونے کو ہیں اور روس یوکرین کے قصبوں اور دیہاتوں میں تباہی مچاتا چلا جا رہا ہے۔ صدر بائیڈن اس نکتے پر بڑے واضح ہیں کہ ہم اس وقت تک یوکرین کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے، چاہے اس میں جتنا وقت بھی لگے جب تک وہ روسی جارحیت کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کرتے رہیں گے۔”