
کریملن کا دعویٰ ہے کہ بوچا، یوکرین میں روسی افواج کی جانب سے کیے جانے والے مظالم درحقیقت ایک ایسی اشتعال انگیزی تھی جو مغرب کی طرف سے رچائی گئی تھی۔ کریملن کا یہ دعویٰ اِن مظالم کے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کی شکل میں موجود دستاویزی ثبوتوں کے برعکس ہے۔ ذیل میں بتایا گیا ہے کہ رچائی جانے والی کوئی اشتعال انگیزی کس طرح کی دکھائی دیتی ہے۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر اپنے بھرپور حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے خود رچائے جانے والے اِس واقعے کو استعمال کیا۔
جب سے روس نے یوکرین کے ساتھ اپنی بلا اشتعال جنگ شروع کی ہے کریملن نے اپنی غلط معلومات کی مہم کو تیز سے تیزتر کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے جھوٹے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
ایک ویڈیو اتنی مشکوک اور اتنی بھیانک تھی کہ نیدرلینڈ میں قائم ایک تحقیقاتی صحافتی گروپ، ‘ بیلنگ کیٹ’ نے اس کی جانچ پڑتال کی۔ یہ گروپ حقائق کی جانچ پڑتال اور اوپن سورس انٹیلی جنس میں مہارت رکھتا ہے۔
مبینہ طور پر یہ واقعہ ڈونیٹسک اور ہورلیوکا کے درمیان ایک ہائی وے پر 22 فروری کو مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً 5 بجے پیش آیا۔ ایک دیسی ساخت کے بم (آئی ای ڈی) کے بارے میں بتایا گیا کہ ہائی وے پر اس بم کا دھماکہ کیا گیا جس سے ایک وین اور ایک کار تباہ ہو گئی۔
ویڈیو میں دو گاڑیوں میں جلی ہوئی تین لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔ بظاہر یہ گاڑیاں 2014 میں روس کے یوکرین پر حملے کے وقت سے روس کی حمایت یافتہ افواج کے زیر کنٹرول ڈونباس کے علاقے میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم کا نشانہ بنیں۔
جھوٹ پھیلانے کے لیے سرکاری میڈیا کا استعمال
ولاڈیمیر پوٹن کے وفاداروں اور کریملن کے حامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اِس مبینہ آئی ای ڈی کے پیچھے یوکرین کی مسلح افواج کا ہاتھ تھا اور انہوں نے مشرقی یوکرین میں نام نہاد عوامی جمہوریہ ڈونیٹسک (ڈی این آر) سے وابستہ ایک فوجی کمانڈر کو نشانہ بنایا۔
جنہوں نے سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کیں اور دعویٰ کیے اُن میں دیگر کے علاوہ حکومتی کنٹرول میں چلنے والا روزنامہ ایزویستیا اور کریملن کی حامی ڈی این آر عوامی ملیشیا بھی شامل تھے۔
بیلنگ کیٹ نے اپنی تحقیقات کے دوران دھماکہ خیز ہتھیاروں کے ماہر اور فرانزک کے ماہر دو ڈاکٹروں پر انحصار کیا اور جو کچھ ان ماہرین نے دیکھا اس سے ویڈیو کے بارے میں روسی کہانی کی تصدیق نہیں ہوتی۔
- کسی بھی گاڑی پر نمبر پلیٹ نہیں تھی۔
- • کوئی بھی گاڑی دھماکے کے مقام سے ہٹی دکھائی نہیں دیتی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آئی ای ڈی کا دھماکہ ہوا تو دونوں گاڑیوں متحرک نہیں بلکہ ساکت تھیں۔
- • دونوں گاڑیوں کو پہنچنے والا نقصان آئی ای ڈی دھماکے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
دھماکہ خیز ہتھیاروں کے ماہر اور کیرون ریسورسز کے ڈائریکٹر، کرِس کاب-سمتھ نے بیلنگ کیٹ کو بتایا، “میری رائے میں یہ تصاویر کسی قابل اعتبار منظر نامے کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس واقعے کو ایک ایسے آئی ای ڈی دھماکے کی شکل دینے کے لیے رچایا گیا ہے جو یہ ثابت کرے کہ اس میں تین افراد مارے گئے۔”

ماہرین پر انحصار
کھوپڑی کے زخم بھی آئی ای ڈی دھماکے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لاشوں میں سے ایک کی کھوپڑی میں سر کے دونوں طرف وہ واضح زخم دکھائی دیتے ہیں جو کھوپڑی کے باقی حصوں سے کھوپڑی کی ٹوپی کو نفاست سے کاٹ کر الگ کیے گئے ہیں۔
بیلنگ کیٹ نے کھلے عوامی ذرائع میں دستیاب معلومات کو دیکھا اور انہیں پتہ چلا کہ یہ زخم پوسٹ مارٹم کے دوران اختیار کیے جانے والے طریقہ کار سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ اس تنظیم نے انگلینڈ میں ونچسٹر یونیورسٹی کے لارنس اوونز سے ان تصاویر کا تجزیہ کرنے کو کہا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جن لوگوں کی لاشوں کو جب گاڑیوں میں رکھا گیا وہ اُس سے پہلے ہی سے مر چکے تھے۔ لہذا آئی ای ڈی کے دھماکے کے وقت وہ زندہ نہ تھے۔
بیلنگ کیٹ کی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس واقعے میں گاڑیوں میں سفر کرنے والے زندہ لوگوں کی جگہ “لاشوں کا رکھا جانا اور آئی ای ڈی کے جعلی نقصان کا امکان” دونوں چیزیں شامل ہیں ۔
کم از کم ایک بات تو طے ہے کہ کریملن نے ایک ایسی جعلی آئی ای ڈی کے بارے میں ایک جعلی کہانی کو استعمال کیا جس میں درحقیقت کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا۔ اس کا مقصد روس میں اس جنگ کے لیے حمایت حاصل کرنا تھا جو روس نے خود شروع کی۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ قبل شروع ہونے والی اِس جنگ میں 1600 سے زیادہ شہری ہلاک اور 2000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔