
دنیا بھر کے ممالک نے یوکرین کے چار علاقوں میں روس کی طرف سے رچائے گئے ریفرنڈموں کے کھیل کے بعد روس کے صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی یوکرین کے علاقوں کو روس میں ضم کرنے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 30 ستمبر کو کہا کہ “امریکہ یوکرین کے کچھ حصوں پر خودمختاری کے بارے میں کریملن کے کسی بھی دعوے کو نہ تو [اب] تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی [مستقبل] میں کبھی تسلیم کرے گا۔ [روس] نے اِن علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کیا ہے اور اب انہیں روس میں شامل کرنے کے درپے ہے۔”
یوکرین کی سرحدوں کو بزور طاقت تبدیل کرنے کی ماسکو کی تازہ ترین غیر قانونی کوشش فوری بین الاقوامی سرزنش کا باعث بنی ہے۔
پابندیاں:امریکہ، برطانیہ سمیت حلیفوں، اور شراکت داروں نے 30 ستمبر کو اضافی پابندیوں اور ویزا کی قدغنوں کا اعلان کیا جن میں مندرجہ ذیل کو ہدف بنایا گیا ہے:-
- روسی حکومت کے عہدیداروں اور اُن کے اہل خانہ کو۔
- روسی اور بیلا روس کے فوجی عہدیداروں کو۔
- دفاعی خریداری کے نیٹ ورکوں کو جن میں وہ بین الاقوامی سپلائر بھی شامل ہیں جو روس کے فوجی صنعتی کمپلیکس کی معاونت کرتے ہیں۔
یورپی کمیشن کی صدر اورسلا وان ڈیر لیین نے روس میں شامل ہونے کے بارے میں کریملن کے منعقدہ ریفرنڈموں کو “زمین پر قبضہ کرنے کی ایک غیر قانونی کوشش” قرار دیا اور کہا کہ یورپی یونین اپنے 27 رکن ممالک میں روسی مصنوعات کی درآمد پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کرے گی۔
مذمت: نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹن برگ نے روس کے اقدامات کو “دوسری جنگ عظیم کے بعد طاقت کے بل بوتے پر یورپی سرزمین پر قبضہ کرنے کی سب سے بڑی کوشش” قرار دیا۔
وسطی اور مشرقی یورپ کے نو نیٹو ممالک کے صدور نے 2 اکتوبر کو کہا کہ وہ “بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلی خلاف ورزی” پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ جمہوریہ چیک، ایستونیا، لاتھویا، لتھوینیا، مونٹی نیگرو، پولینڈ، شمالی مقدونیہ، رومانیہ اور سلواکیہ کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ روس کے یوکرینی علاقے کے الحاق کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے نے بتایا کہ 23 ستمبر کو مقبوضہ علاقوں میں نام نہاد ووٹنگ کے پہلے دن سات سرکردہ صنعتی جمہوریتوں کے گروپ کے رہنماؤں نے بھی یہی موقف اپنایا اور کہا کہ وہ ریفرنڈم یا کسی بھی الحاق کو کبھی بھی نہیں مانیں گے۔ گروپ آف سیون [جی سیون] یورپی یونین سمیت فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا پر مشتمل ہے۔

‘بندوق کی نوک تلے ہونے والا ریفرنڈم
توقع کے مطابق روس کے سرکاری میڈیا نے 27 ستمبر کو اعلان کیا کہ روس کے زیر کنٹرول یوکرین کےعلاقوں میں 27 ستمبر کو ختم ہونے والے ریفرنڈم میں بڑی اکثریت نے روس میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔
کریملن نے ریفرنڈم کے جعلی نتائج استعمال کیے تاکہ وہ یہ دعویٰ کر سکے کہ مقبوضہ علاقے کے ووٹر روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور چاروں علاقوں کا الحاق چاہتے ہیں۔
درحقیقت ریفرنڈم قطعی طور پر نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ تھے۔ روس نے انتخابات کی نگرانی کے لیے پیوٹن کے وفادار اہلکار تعینات کیے اور یوکرین کے شہریوں کو مسلح محافظوں کی نگرانی میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا۔
یوکرینی اہلکاروں نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ لوگوں کے بعض مقبوضہ علاقوں سے نکلنے پر اُس وقت تک پابندی لگی رہی جب تک چار روزہ ووٹنگ مکمل نہیں ہوئی۔ اسی طرح مسلح گروہ لوگوں کے گھروں میں جا کر انہیں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرتے رہے اور ملازمین کوووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں ڈراتے دھمکاتے رہے۔
یہ انتخابات ڈونیٹسک اور لوہانسک صوبوں میں منعقد ہوئے جو اجتماعی طور پر ڈونباس کا علاقہ کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتخابات مشرقی صوبوں، کھیرسان اور ژاپوریژیا میں بھی منعقد ہوئے۔
2014 میں کریملن نے کرائمیا پر حملہ کرکے قبضہ کیا جس کے بعد روسی پشت پناہ میں اسی طرح ووٹ ڈالے گئے۔
30 ستمبر کی اپنی تقریر میں پیوٹن نے اعلان کیا کہ روس میں چار نئے علاقے شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “لوہانسک، ڈونیٹسک، کھیرسان کے علاقے اور ژاپوریژیا کے علاقے میں رہنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے ہمارے ہم وطن بننے جا رہے ہیں۔”
ووٹنگ سے پہلے کھیرسان کے ایک رہائشی نے اس ریفرنڈم کو بندوق کی نوک تلے ہونے والا ریفرنڈم قرار دیا۔
بائیڈن نے 30 ستمبر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی “پیوٹن اور اس کے غیرذمہ دارانہ الفاظ اور دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔” پیوٹن “اپنے ہمسائے کے علاقے پر قبضہ کر کے اس کے نتائج سے نہیں بچ سکتے۔”